مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
ہماری مسجدوں پر قبضہ کیسے ہوتا ہے؟
اہل سنت و جماعت کی مساجد میں شیعہ لوگ نماز کے واسطے نہیں آتے ہیں۔ہماری مسجدوں میں وہابیہ نماز کے لئے آتے ہیں۔خواہ وہ مقلد وہابیہ ہوں یا غیر مقلد وہابیہ۔
یہ ہماری مساجد میں مسلسل آمد و رفت جاری رکھتے ہیں۔مساجد میں چندہ بھی دیتے ہیں,پھر ان کے مالی تعاون کو دیکھ کر اہل محلہ ان کو مسجد کمیٹی کا ممبر بنا دیتے ہیں۔
جب کمیٹی کے اندر ان وہابیوں کی گرفت مضبوط ہو جاتی ہے تو پھر وہ سنی امام کو اس قدر پریشان کرتے ہیں کہ وہ خود مسجد چھوڑ دیتے ہیں یا کوئی الزام عائد کر کے ان کو رخصت کر دیتے ہیں,پھر وہ لوگ انتہائی عیاری کے ساتھ وہابی امام کو مقرر کر دیتے ہیں۔
وہابی امام وقتی طور پر فاتحہ و نیاز بھی کرتا ہے اور سلام وقیام بھی,پھر رفتہ رفتہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے لگتا ہے۔
جب ایک ہی مسجد میں سنی اور وہابی نماز پڑھتے ہیں تو ایک دوسرے سے میل جول بھی رکھتے ہیں اور سلام و کلام ومصافحہ ومعانقہ بھی کرتے ہیں۔معاملہ آگے بڑھتا ہے تو آپس میں شادی بیاہ بھی کرتے ہیں اور جنازہ وکفن و دفن میں بھی شریک ہوتے ہیں۔وہابی امام کی اقتدا میں نمازیں بھی پڑھنے لگتے ہیں۔
اس طرح سنی حضرات اپنی مساجد بھی وہابیہ کو سپرد کر دیتے ہیں۔اپنی آل و الاد بھی ان کو ہبہ کر دیتے ہیں اور اپنا دین و ایمان بھی غارت کر بیٹھتے ہیں۔
اگر احباب اہل سنت وجماعت اللہ و رسول(عز وجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)کے حکم پر عمل کریں تو امید قوی ہے کہ یہ نوبت نہ آئے۔
دراصل کسی بدمذہب کو اپنی مساجد میں نماز کی اجازت دینا ہی غلط ہے۔اگر کوئی بدمذہب یا مرتد صف میں شامل ہو گیا تو اس کی وجہ سے صف منقطع ہو جاتی ہے اور قطع صف کا گناہ ہو گا۔
اس کے تفصیلی احکام محدث سورتی حضرت علامہ وصی احمد محدث سورتی قدس سرہ العزیز نے اپنے رسالہ: "جامع الشواہد فی اخراج الوہابیین عن المساجد"میں رقم فرما دیا ہے۔یہ کتاب اردو زبان میں ہے اور چھپی ہوئی ہے اور دستیاب ہے۔
جب ہم اپنی مساجد کو بدمذہبوں سے بچائیں گے تو ہماری نماز جماعت قطع صف سے محفوظ رہے گی۔جب وہ ہماری مساجد میں داخل نہیں ہوں گے تو ہماری مساجد پر قبضہ بھی نہیں کر سکیں گے۔میل جول,سلام وکلام اور مصافحہ و معانقہ سے بھی ہم محفوظ رہ سکیں گے۔
جب ہم عبادت گاہوں سے بدمذہبوں کو الگ رکھیں گے تو عوام و خواص سب کو یاد رہے گا کہ یہ لوگ ہم سے الگ ہیں,پھر ان شاء اللہ تعالی شادی بیاہ کی نوبت بھی نہیں آئے گی اور لوگ جنازہ وغیرہ میں شرکت سے بھی پرہیز کریں گے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:20:نومبر 2020
2 تبصرے
درست فرمایا آپ نے
جواب دیںحذف کریںآپ نے درست فرمایا۔
جواب دیںحذف کریںاپنا کمینٹ یہاں لکھیں