پاسبان ملت: ایک نادر ونایاب شخصیت
پاسبان ملت خطیب مشرق حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی(1922-1990) اور مناظر اہل سنت رئیس القلم حضرت علامہ ارشدالقادری(1925-2002)کے نام سے کون سنی ناواقف ہے۔بیسوی صدی کا نصف حصہ ان دونوں رہنماؤں کی مسلکی وملی خدمات سے لبریزہے۔
ان دونوں بزرگوں کے تحریری، تقریری، تبلیغی، تعمیری، ملکی وسیاسی کارناموں کا اعتراف اپنوں اور بیگانوں،سبھوں نے کیا ہے۔حافظ ملت حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی (1894- 1976) ان دونوں سے حد درجہ محبت فرماتے تھے۔
پاسبان ملت حضرت علامہ نظامی علیہ الرحمہ،حضور مجاہد ملت رئیس اعظم اڑیسہ حضرت مولانا شاہ حبیب الرحمن عباسی قادری رحمۃاللہ علیہ(1322ھ-1401ھ) کے تلامذہ میں سے تھے،اور الجامعۃ الاشرفیہ کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔حضرت رئیس القلم علامہ ارشدالقادری قدس سرہ العزیز الجامعۃ الاشرفیہ کے فارغ التحصیل اور تنظیم ابنائے قدیم:الجامعۃ الاشرفیہ(مبارکپور) کے صدر تھے۔
خطیب مشرق حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمۃ والرضوان ان عہد سازشخصیتوں میں سے تھے کہ صدیوں تک جن کا کوئی مماثل ومتبادل نظر نہیں آتا۔دنیا مدت دراز تک ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہتی ہے۔
آپ کا وطن موضع سرائے غنی تحصیل پھولپور ضلع الہ آباد تھا۔آپ نے الٰہ آباد ہی میں حضور مجاہد ملت علامہ شاہ حبیب الرحمن عباسی، شمس العلما حضرت مفتی نظام الدین الہ آبادی اوردیگر علمائے کرام سے علوم دینیہ کی تحصیل فرمائی۔
اپنے استاذ حضرت مولانا نظام الدین الہ آبادی کی طرف خود کو منسوب کرتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ نظامی لکھا کرتے تھے۔
آپ کی تعلیم از میزان تا بخاری شریف مدرسہ سبحانیہ الہ آباد میں ہوئی۔
آپ نے مفتی سید عبدالقدوس صاحب اڑیسوی،مولانا حکیم محمد احسن صاحب بہاری وغیرھما سے بھی بعض کتابیں مدرسہ مصباح العلوم الہ آباد میں پڑھی۔
(خطبات نظامی:ص16)
الٰہ آباد میں دارالعلوم غریب نواز کے نام سے ایک عظیم الشان تعلیمی ادارہ قائم فرمایا۔
ممبئی میں ادارہ شرعیہ(مہاراشٹر)قائم فرمایا۔کرناٹک میں بہت سے مدارس ومکاتیب قائم فرمائے۔ ریاست کرناٹک کے اکثر قدیم مدارس اسلامیہ آپ ہی کی تحریک پر قائم ہوئے ہیں۔ راجستھان میں بھی آپ کی تعمیری وتبلیغی خدمات ہیں۔
ڈاکٹر اقبال کو شاعر مشرق کا خطاب دیاگیا۔ اس کے بعد آج تک کسی کو اس خطاب سے نوازا نہ گیا۔ اسی طرح حضرت علامہ نظامی کوخطیب مشرق کے خطاب سے سرفراز کیا گیا،اور ان کے بعد ہند و پاک میں کوئی واعظ وخطیب یہ اعزازنہ پاسکا۔جن حضرات نے انہیں دیکھا،وہ بتاتے ہیں کہ حضرت علامہ نظامی علیہ الرحمہ اپنے احباب و متعلقین کے ما بین جب مجلسی گفتگو فرماتے توایسا تأثر پیدا ہوجاتاگویا کہ آپ اسٹیج پر خطاب فرمارہے ہوں۔
حضرت علامہ نظامی علیہ الرحمہ1922 میں پیدا ہوئے اور1990 میں دارالبقا کی طرف کوچ کر گئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)علامہ ممدوح نے تعمیری،تنظیمی،تحریری،تقریری ہر قسم کی خدمات کی بے شمار یادگار یں ہمیں عطا فرماگئے۔یہ ایسی ہستیاں ہیں کہ جن کی مثالیں نادرونایاب ہیں۔
غبار راہ سے کہ دو سنبھالے نقش قدم
زمانہ ڈھونڈے گا انہیں رہبری کے لیے
حضور مجاہد ملت علیہ الرحمۃوالرضوان بھیونڈی (ممبئی)کے مناظرہ میں صدر مناظرہ تھے،اور حضرت علامہ نظامی علیہ الرحمہ بحیثیت مناظر دیوبندی مناظرکے سوالوں کے جواب اور ان پر سوالات قائم فرمارہے تھے۔ حضور مجاہد ملت رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کی حاضر جوابی، دندان شکن طرزاستدلال اور آپ کے حیران کن اندازتخاطب کو دیکھ کر فرمایاتھا کہ اگر میرے پاس وسعت ہوتی تونظامی کو سونے سے تول دیتا۔
(خطبات نظامی ص11)
آپ خوش طرز قلمکار بھی تھے۔ جس طرح آپ کی تقریریں فصاحت وبلاغت کی تصویر مجسم ہو تیں، اسی طرح آپ کی تحریریں ادبی الفاظ سے مزین، عمدہ اور سلیس تراکیب سے مرصع، حسین اسلوب نگارش سے آراستہ، معانی ومفاہیم کا ایک عظیم گلدستہ اور قارئین کے لیے انتہائی متأثر کن ہوتیں۔ آپ کی ایک درجن سے زائد کتابیں طبع ہوچکی ہیں۔ آپ کی تصانیف میں ”خون کے آنسوں“کو کافی شہرت اور عوام وخواص کے مابین خوب پذیرائی ملی۔
عروس البلادممبئی میں علامہ نظامی کی تقریریں خوب پسند کی جاتیں۔ عہد شباب سے عمر کے اخیرحصہ تک اہل ممبئی آپ کومدعوکرتے رہے۔ ابتدائی عہد میں علامہ نظامی کی فصیح و بلیغ تقریریں عوام کوبمشکل ہی سمجھ میں آتیں۔
رفتہ رفتہ علامہ نظامی کے تجربات بڑھتے گئے۔انداز بیاں نکھرتا گیا،مافی الضمیر کی عمدہ تعبیر کا ملکہ قوی سے قوی ترہوتا گیا اور آپ ایسے قادر الکلام خطیب بن گئے کہ آپ کی تقریر فصیح و بلیغ ہونے کے باوجود عوام الناس کے دائرہ فہم سے باہر نہیں ہوتی، بلکہ حسن بیان کا لطف انہیں بھی محسوس ہوتا اور علما ودانشوران کا باذوق طبقہ خواہ وہ سنی ہو یا غیر سنی، آپ کی تقریروں کوبغور سنتااور ان پر محویت ووجد کا عالم طاری ہوجاتا۔
در حقیقت آپ کی تقریریں جس طرح ظاہری محاسن سے مزین ہوتیں، اس سے کہیں زیادہ علمی نکات،فکری دقائق اور تحقیقی مواد پر مشتمل ہوتیں۔ نادر روزگار اساتذہ کرام نے آپ کی بے مثال تربیت فرمائی تھی۔
آپ اپنے استاذ گرامی حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
عشاکے بعد مطالعہ کے عادی نہ تھے،نمازعشا پڑھ کر سو جاتے۔تہجد کے وقت مطالعہ فرماتے۔ مجھے یاد ہے کہ جب مولانا نظام الدین صاحب کی بخاری شریف کی تعلیم ہورہی تھی، تو تہجد کے بعد نماز فجرسے پہلے بخاری شریف کا درس ختم ہوجاتا۔
طبیعت سہل پسند واقع نہ تھی، بلکہ دقت طلب تھی۔ ہم لوگوں کو حاشیہ دیکھنے سے روکتے، فرماتے: مطالعہ میں حاشیہ کی پابندی نہ کرو، ورنہ ذہن کمزور ہوجائے گا۔بغیر حاشیہ دیکھے متن کو حل کرو۔ چنانچہ عام درسگاہوں میں قطبی کے بعد ملا حسن داخل نصاب ہے،لیکن وہ ملا حسن کی بجائے شرح مرقات پڑھاتے کہ یہ بالکل معریٰ ہے۔ اس پر ایک سطر کا حاشیہ نہیں۔ یہ حضرت علامہ عبد الحق خیرآبادی کی کتاب ہے۔ کہنے کے لیے مرقات کی شرح ہے،لیکن یہ منطق کی بہت سی کتابوں پر بھاری ہے۔اس کے پڑھانے والے بہت کم ملتے ہیں۔ (خطبات نظامی ص18)
سنی تبلیغی جماعت کا قیام
علامہ نظامی سنیت کے لیے ایک درد مند دل رکھتے تھے۔آپ نے فروغ سنیت اور مسلک کی ترویج وارتقاء اورخدائے تعالیٰ کا پیغام خدا کے بندوں تک پہچانے کے لیے ”سنی تبلیغی جماعت‘‘قائم فرمایا،اور اپنی زندگی میں اس کے فروغ کے لیے خوب جدوجہداورمحنت ومشقت فرمائی۔ آپ کی سعی پیہم سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں سنی تبلیغی جماعت کا کام شروع ہوا۔
اس کا مرکزی دفتر(ہیڈآفس)دارالعلوم غریب نواز الٰہ آبادمیں تھا اور مختلف ریاستوں میں ایک یا کئی ایک علاقائی مراکز تھے۔
علاقائی مراکزاور اس کے برانچ کی تفصیل حسب ذیل ہے:
مہاراشٹر: رضاجامع مسجد پھول گلی ممبئی
امیر: حضرت سراج ملت علیہ الرحمہ
راجستھان: قصبہ باسنی ناگور
امیر: مولانا ضمیراحمد رضوی مرحوم
حال امیر: مفتی ولی محمد رضوی (باسنی)
یوپی: دارالعلوم غریب نواز الہ آباد
یوپی: بنارس
بہار: سلطان گنج پٹنہ
الجامعۃ الرضویہ: پٹنہ
بہار: دربھنگہ:بہیڑہ
مدھیہ پردیش: جامع مسجد مدار ٹیکری جبل پور
امیر: حضور برہان ملت علیہ الرحمہ
کرناٹک: ہبلی
کرناٹک: منڈگوڈ
امیر: الحاج بڈھن صاحب
کرناٹک: سنی جامع مسجدشاہ عالم دیوان شیموگہ
امیر: عبدالستار نظامی صاحب
حضرت علامہ نظامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آج سے قریباً 50:سال پہلے 1970 میں سنی تبلیغی جماعت کا قیام فرمایاتھا، تاکہ دیوبندیوں کی تبلیغی جماعت کے اثرات کو زائل کیا جائے اور ان کے عہد میں اچھا خاصہ کام بھی ہوا۔ان کی وفات کے بعد راجستھان یونٹ اور مہاراشٹر یونٹ کی خدمات آج بھی زورو شور کے ساتھ جاری ہیں۔ دیگر ریاستوں میں یہ تحریک اپنا وجود کھوچکی ہے۔
سنی تبلیغی جماعت کے مبلغین صرف علمائے کرام ہوا کرتے ہیں، بوقت ضرورت علمائے کرام کووظائف دے کرمختلف علاقوں میں تبلیغی خدمات کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ سنی تبلیغی جماعت کی راجستھان یونٹ کے زیر اہتمام چار سو مدارس ومکاتب میں طلبہ کو علوم دینیہ سے آراستہ کیا جارہا ہے۔ راجستھان یونٹ کا صدر مقام قصبہ باسنی ضلع ناگور ہے۔
رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ
رئیس القلم،مناظر اہل ست حضرت علامہ ارشدالقادری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جامعہ اشرفیہ سے فراغت کے بعدناگپور میں درس وتدریس کی خدمت انجام دے رہے تھے۔اس کے بعد حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ وارضوان کے حکم کے مطابق جمشیدپور چلے گئے۔ وہاں آپ نے مدرسہ فیض العلوم قائم فرمایا۔
اس کے علاوہ بہار،یوپی، جھاڑکھنڈ، دہلی او ر بھارت کی دیگر ریاستوں، بلکہ بیرون ممالک میں بھی آپ نے دینی مدارس کا قیام فرمایا۔ تبلیغ دین کے لیے ایک عالمی تحریک ”دی ورلڈاسلامک مشن“ کا قیام فرمایا۔
اخیر عمر میں آپ نے جامعہ نظام الدین اولیا (دہلی) تعمیر فرمائی، جہاں مدارس عربیہ کے فارغین دعوت وتبلیغ دین کی تربیت پاتے ہیں،اور انہیں عربی اور انگریزی زبان و ادب میں مہارت پیدا کرنے کی ہر طرح کی تدریسی و تمرینی کوششیں کی جاتی ہیں۔
قائد اہل سنت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ اپنے عہد کے بے مثال مناظر، صاحب طرز ادیب ومصنف اور ایک مقبول ترین خطیب تھے۔بے شمار تحریریں اور کتب ورسائل آپ کی یادگار ہیں۔زلزلہ، زیر وزبر، لالہ زار،تعزیرات قلم، تبلیغی جماعت حقائق کے اجالے میں،جماعت اسلامی،لسان الفردوس،وغیرہ کتابیں دل نشیں اسلوب بیان، شستہ زبان و ادب اور اپنے قاہر دلائل اور عمدہ طرزاستدلال کی وجہ سے رہتی دنیاتک داد تحسین حاصل کرتی رہیں گی۔
چندماہ قبل ہی آپ کے شہزادۂ گرامی فاضل شہیر وادیب کبیر حضرت علامہ ڈاکٹر غلام زرقانی قادری دام ظلہ الاقدس نے علامہ موصوف کی تمام کتابوں کا موسوعہ شائع فرمایا ہے۔اس طرح آپ کی تمام تحریریں بھی محفوظ ہوگئیں اور قارئین کوساری کتابیں بھی یکجا دستیاب ہوگئیں۔
ان چند سطور میں علامہ موصوف کے محامدومحاسن اور فضائل ومناقب کی نقاشی نہیں کی جا سکتی۔آپ زندگی بھر دینی خدمات میں مصروف رہے۔آپ کی دینی خدمات کو چند سطور میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
تیرے جمال کی زیبائیاں ادا نہ ہوئیں
ہزار کام لیا میں نے خوش بیانی سے
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:28:نومبر 2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں