« مختصــر ســوانح حیــات »
-----------------------------------------------------------
مولائے روم شیخ جلال الدین رومی رحمۃ اللّٰه علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:* اصل نام محمد۔
*لقب:* جلال الدین اور مولائے روم تھا۔
*سلسلہ نسب:* جواہر مضیہ میں سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا ہے ! محمد جلال الدین بن محمد بہاؤ الدین بن محمد بن حسین بلخی بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق۔ (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)
*تاریخ ِولادت:* مولائے روم۔ ۶۰۴ھ مطابق ۱۲۰۷ء میں پیدا ہوئے۔
*تعلیم و تربیت:* ابتدائی تعلیم اپنے والدِ ماجد شیخ بہاؤ الدین سے حاصل کی پھر انہوں نے اپنے مرید سید برہان الدین کو مولانا کا معلم اور اتالیق بنا دیا۔ اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ ۶۳۹ھ میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم مولانا کمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ ان کے علاوہ عالمِ اسلام کی عظیم ہستیوں شیخ سعد الدین حموی، شیخ محی الدین ابن عربی، شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ عثمان رومی، شیخ اوحد الدین کرمانی، شیخ صدر الدین قونوی (علیہم الرحمۃ والرضوان) سے اکتساب فیض کیا۔
یہاں تک کہ ۶۰۴ھ میں پیدا ہونے والا یہ مولودِ مسعود ۲۶ سال کی عمر میں مرجع خلائق بن گیا اور بڑے بڑے علماء انکی طرف رجوع کرنے لگے۔
*بیعت و خلافت:* اپنے والد صاحب کے وصال کے بعد مولانا نے اپنا روحانی تعلق سید برہان الدین سے قائم کر لیا تھا۔ چنانچہ مثنوی میں مولانا نے ان کا تذکرہ اپنے پیر کی حیثیت سے کیا ہے۔ جواہر مضیہ کی روایت کے مطابق شیخ شمس الدین کو ان کے مرشد بابا کمال الدین جندی نے یہ کہہ کر مولانا کے پاس بھیجا تھا کہ روم جاؤ وہاں ایک سوختہ دل ہے اس کو گرماؤ۔ مولائے روم آپکی شخصیت و تعلیمات سے ایسے متأثر ہوئے کہ آپکے دست حق پرست پر بیعت ہوگئے۔
*سیرت و تعلیمات:* مولانا پر بچپن ہی سے سعادت مندی کے آثار نمایاں تھے۔ جب خواجہ فرید الدین عطار مولائے روم کے والد شیخ بہاؤ الدین سے نیشاپور میں ملے اس وقت مولائے روم کی عمر تقریباً ۶ سال تھی۔ خواجہ صاحب نے آپکو دیکھ کر شیخ بہاؤ الدین سے فرمایا!‘‘
اس صاحبزادے کے جوہر ِقابل سے غفلت نہ برتیے گا یہ مستقبل میں آفتاب ِ شریعت اور ماہتابِ طریقت ہوگا’’۔
واقعی ایسا ہوا جیسے خواجہ صاحب نے فرمایا تھا ۔مولائے روم ،دانائے مغرب ،میں تواضع اور انکساری اس حد تک تھی کہ ایک راہب نے آپکی انکساری دیکھ کر اپنے رفقاء سمیت اسلام قبول کرلیا ۔ انتقال سے قبل مولانا نے اپنے اصحاب کو وصیت فرمائی !کہ سرًاو علانیۃًً اللہ سے ڈرتے رہنا، کھانے، سونے اور گفتگو میں کمی کرنا، گناہوں سے دور رہنا، روزے برابر رکھنا، رات کے قیام میں ہمیشگی اختیار کرنا، شہوتوں کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ دینا، ہر طرح کے لوگوں کی جفاؤں کو برداشت کرنا، غافلوں اورجاہلوں کی ہم نشینی سے بچنا ، نیکوں اور بزرگوں سے مصاحبت رکھنا، بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے، اور بہترین کلام وہ ہے جو قلیل اور مکمل ہو۔تمام تعریف و توصیف اللہ جل شانہ کیلئے ہے جو عظمت والا ہے اور اس کے محبوب حضرت محمدﷺ پر سلام ہو۔
*وصال:* تقریباً ۶۶ سال کی عمر میں یک شنبہ ۵/ جمادی الثانی/۶۷۲ھ، مطابق۱۷، دسمبر ۱۲۷۳ء کو مغرب کے وقت مولائے روم عالمِ آخرت کی طرف روانہ ہوگئے اور قونیہ کی پاک سر زمین آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں