فلاح دارین کا مبارک و مسعود موسم
رمضان المبارک
غلام مصطفیٰ رضوی
[نوری مشن مالیگاؤں]
ماہِ صیام رمضان المبارک کی بہاریں جلوہ نما ہیں۔ بلکہ پہلا عشرہ برکتوں کی صبح طلوع کر گیا- ہر سال یہ موسمِ بہار آتا ہے۔ اپنی برکتیں لُٹاتا ہے۔ سعادتوں کے توشے بٹتے ہیں۔ رحمتوں کی بادِ بہاری چلتی ہے۔ برکتوں سے دامنِ مراد بھر بھر دیے جاتے ہیں۔ اِس کی ہر ساعت افضل، ہر لمحہ قیمتی، ہر گھڑی نور نور۔ ایسے ماہِ مبارک کو غنیمت جانتے ہوئے اس کی عطا پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ اس کے حقوق کی ادائیگی کو وطیرہ بنائیں۔ اس ضمن میں چند نکات درج کیے جاتے ہیں جن پر عمل آوری سے ہم دارین کی سعادتیں پا سکتے ہیں، آخرت کو سنوار سکتے ہیں؛ اور عروج و بلندی کی منزلیں پا سکتے ہیں۔
[۱] اللہ تعالیٰ نے قسم قسم کی نعمتوں سے نوازا۔ ان میں ایک عظیم نعمت ماہِ رمضان ہے۔ اس لیے اس کے ادب و احترام میں کوئی کمی نہ آنے دیں۔ ادب سے زندگی کا وقار ہے۔ ادب سے خوش عقیدگی کی بہار ہے۔ ادب ہی شرف و فضل کے مقامِ بلند پر فائز کرتا ہے۔ اس لیے رمضان المبارک کے فیوض و برکات سے سرفرازی کے لیے اکرام و احترام کا مظاہرہ کیجیے۔
[۲]تقویٰ کی راہ اپنائیے۔ ماہِ رمضان کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کو تقویٰ کا جوہر عطاہو۔ روزہ تقوے والی زندگی کی تربیت کرتا ہے۔ روزہ باطنی تطہیر کا سامان مہیا کرتا ہے۔ روزہ تزکیۂ روح، اصلاحِ قلب، تعمیرِ فکر کے ذریعے متقی بناتا ہے۔ اس لیے رمضان کا حق یہ ہے کہ اس سے تقویٰ کی فکر بیدار کی جائے۔
[۳]تزکیۂ نفس کا مرحلۂ شوق ہے رمضان المبارک۔ نفس- گناہوں کی عادت سے بڑا سخت ہوجاتا ہے، معاذاللہ! نیکیوں سے رغبت نہیں رہتی۔ روزہ روح کا علاج اور نفس کا محاسبا کرتا ہے؛ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں ؎
اللہ اللہ کے نبی سے
فریاد ہے نفس کی بدی سے
دن بھر کھیلوں میں خاک اُڑائی
لاج آئی نہ ذرّوں کی ہنسی سے
اعلیٰ حضرت نے ان اشعار میں جو معروضہ پیش کیا ہے وہ احتسابِ نفس سے متعلق ہے۔دُنیا میں رہ کر دُنیا کی رنگینی اور شرارتِ نفس سے بچ جانا یقیناً مقبولیت کی دلیل ہے۔ بندۂ مومن کے لیے ماہِ رمضان اصلاح کا پروانہ ہے؛ جس میں باطنی تربیت سے اصلاحِ نفس کا مرحلۂ شوق طے ہوتا ہے۔اور کامیابی کی منزل ملتی ہے۔ بس دُعا یہی ہے کہ مولیٰ تعالیٰ نفس کی شرارتوں سے ہمیں محفوظ رکھے۔آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔
[۴]زکوٰۃ کا نظام معاشی اعتبار سے بہت جامع ہے۔ اس سے جہاں گداگری پر قابو پایا جا سکتا ہے؛ وہیں مفلسی کے شکار مسلمانوں کی داد رَسی بھی کی جا سکتی ہے۔ معاشرے کے دَبے کچلے افراد کے لیے زکوٰۃ ایک ایسا سہارا ہے جس کے ذریعے خود کفیل زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ ماہِ صیام میں ثواب کی زیادتی کی وجہ سے بڑی تعداد میں مسلمان زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ حالاں کہ اصولاً مالکِ نصاب پر نصاب کی مدت جب بھی پوری ہو زکوٰۃ نکالنی ضروری ہے۔ جن کے یہاں زکوٰۃ ماہِ صیام میں ہی نکالنے کی روایت ہے انھیں چاہیے کہ مستحقین کا جائزہ لے لیں۔ بڑی تعداد ان افراد کی بھی ہوتی ہے جو اہل ہوتے ہوئے بھی سوال نہیں کرتے اور صبر اختیار کر کے اپنی حاجت چھپاتے ہیں۔ ایسے افراد تک بھی مدَد پہنچائی جائے۔ زکوٰۃ دینے کا عمل احسان کی بجائے رضاے الٰہی کی خاطر انجام پذیر ہو۔زکوٰۃ کے اہل غیر اقامتی تعلیمی اداروں کے مقابل اقامتی مدارس کو ترجیح دی جائے۔ مفلوک الحال رشتہ داروں، متعلقین کا خاص خیال رکھا جائے۔
[۵] اللہ تعالیٰ ماہِ صیام میں رزق میں خاص برکت نازل فرماتا ہے۔ دستر خوان کشادہ ہو جاتا ہے۔ انواع و اقسام کی نعمتیں زینت بنتی ہیں۔ ان نعمتوں میں غربا و مساکین کو بھی عز و وقار کے ساتھ شامل کریں۔ جو انواع واقسام کے کھانوں سے محروم ہیں انھیں بھی حق دار سمجھتے ہوئے لذتِ کام و دہن کا موقع مہیا کریں۔
[٦]معاشرے میں ایسے افراد تلاش کریں جو بیمار ہوں یا ضعیف وناتواں و حق دار؛ ان کے علاج کے کفیل بنیں- ان کے لیے دوا کا نظم کریں۔ ویسے بھی بیماری میں مبتلا انسان یاسیت کا شکار ہوتا ہے؛ اگر ایسوں کو سہارا دے دیا جائے تو گویا- ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا۔
[۷]رمضان المبارک میں نمازوں کی پابندی بھی خوب ہوتی ہے، اسے پورے سال بلکہ ساری زندگی برقرار رکھنے کے لیے عزم کریں!
[۸]ہم نمازوں سے بڑی کوتاہی کرتے ہیں، اس لیے حساب لگائیں تو یقیناً قضا نمازیں ذمہ آئیں گی۔الا ماشاء اللہ۔ اس لیے شبِ رمضان میں قضا نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام بھی کریں۔ کوشش کریں کہ جو نمازیں باقی ہوں وہ جلد از جلد ادا ہو جائیں؛ آئندہ ہر نماز وقت پر باجماعت صحیح صحیح فکر کے حامل امام کی اقتدا میں ادا کریں۔
[۹]اوقاتِ سحر و افطار میں احتیاط سے کام لیں۔ بعض کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اذانِ فجر تک وقتِ سحر رہتا ہے یہ غلط ہے۔ اذانِ فجر نماز کے لیے ہے نہ کہ ختمِ سحر کے لیے۔
[۱۰] تراویح بڑی بابرکت نماز ہے۔ اس سے کوتاہی نہ کریں۔ آج یہ بہانہ تراش لیا گیا ہے کہ ٦؍دن یا ۱۰؍ دن یا شبینہ پڑھ لیں تو بری الذمہ ہوجائیں؛ جب کہ رمضان کی ہر شب میں ۲۰؍رکعت تراویح کی نماز سنتِ مؤکدہ ہے جس کی پاسداری بہر حال ضروری ہے۔
[۱۱]حقوق العباد کی ادائیگی بھی کریں۔ ورنہ ہم عبادتوں کے پابند تو کہلوا لیں گے؛ لیکن حقوق ذمہ باقی ہوں گے تو آخرت میں مواخذہ ہوگا۔
[۱۲]روزہ میں صبر کا مظاہرہ کریں، غصہ سے روزے کا فیض کم ہونے کا اندیشہ ہے۔ دوسروں پر روزے کا اثر ظاہر کرنے کی بجائے نارمل سلوک کریں تا کہ آپ کے صبر کا اظہار بھی ہو اور روزے کے برکات بھی حاصل ہوں۔
اللہ کریم عملِ صالح کی توفیق دے۔ اپنی اور اپنے پیارے محبوب پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رضا و خوش نودی والی زندگی عطا فرمائے۔آمین بجاہ سیدالمرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔
٭٭٭
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں