لیلۃ الجائزہ! امت مسلمہ کے لیے انعام کی رات اور ہمارا طرز عمل

📚     «  امجــــدی   مضــــامین  »     📚
-----------------------------------------------------------
🕯️لیلۃ الجائزہ! امت مسلمہ کے لیے انعام کی رات اور ہمارا طرز عمل🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📬 رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ (یعنی انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے۔ اور جب عیدکی صبح ہوتی ہے تو حق تعالی شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے وہ زمین پر اترکر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی ا واز سے جس کو جنات اور انسان کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کریم رب کی درگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والاہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف کرنے والا ہے۔
رمضان کی مبارک ساعتوں میں محنت کرنے والوں کو مبارک ہو، رمضان کی راتوں میں قیام کرنے والو، قرآن سننے والو، دن کو روزے رکھنے والو، گناہوں سے بچنے والو، نیکیوں کی دوڑ لگانے والو، اللہ اللہ کی صدائیں لگانے والو خوش ہو جاؤ ! انعام کی رات آگئی ہے. اللہ تبارک تعالی کے مزدوروں کو مزدوری ملنے کا وقت آ گیا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: 
جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام (آسمانوں پر) لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالی شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے. یہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس رب کریم کی (درگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے. پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرما تا ہے: کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو، وہ عرض کرتے ہیں ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے تو اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی اور بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو میری عزت کی قسم میرے جلال کی قسم! آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا. دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔
میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ست اری کرتا رہوں گا.(اور ان کو چھپاتا رہوں گا) میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں (اور کافروں) کے سامنے رسوا اور فضیحت نہ کروں گا۔ 
بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ تم نے مجھے راضی کرلیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔ پس فرشتے اس اجروثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو عید کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔ 
(رواہ ابوالشیخ ابن حبان فی کتاب الثواب )

لیکن ذرا غور کیجئے! ذرا تصور کیجئے !ایک شخص اپنی پوری زندگی کی پونجی ایک عالیشان مکان اورمحل بنانے پرصرف کردے اور جب خون پسینے کی گاڑھی کمائی سے بننے والا اس کا خوبصورت محل تیار ہوجائے تویکایک وہ شخص اپنے ہی ہاتھوں بنائے ہوئے اس محل کو گرانے پر کمربستہ ہوجائے۔۔۔ کیا ایسے شخص کو ہوشمند و عاقل سمجھاجائے گا؟ کیا اسے پاگل اور مجنون نہیں سمجھاجائے گا؟ ایک طالب علم سال بھر امتحان کی تیاری کرے، دن رات کا آرام، چین نیند اور سکون اپنے اوپر حرام کرے، بالآخر اللہ اللہ کرکے وہ کمرۂ امتحان میں داخل ہو، بڑی تندہی، محنت اور کامیابی سے وہ اپنا پیپر حل کرے لیکن اچانک وہ اپنا سارا حل شدہ پرچہ پھاڑ کر کمرۂ امتحان سے باہر نکل آئے اور بلاوجہ، بے لگام اچھلنا کودنا، ناچنا، گانا اور ہنگامہ کرنا شروع کردے۔۔ ایسے طالب علم کو کیا کہا جائے گا؟ کیا اسے بے وقوف اور دیوانہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے اپنے سارے سال کی مشقت اور خون جگر کی محنت پر یک لخت پانی پھیر دیا؟ ... ایک مالی ایک پودے کو شب و روز محنت سے سینچے، گرمی، سردی اور دھوپ سائے کی پرواہ کئے بغیر وہ اس پودے کی پرورش کرے اور جب یہ پودا ایک تناور درخت بن جائے اور پھل دینے کے قریب آجائے تو مالی کلہاڑا لے کر اس درخت کو کاٹنے پرتل جائے۔ ذرا سوچئے اسے کیا کہاجائے گا! ... کیا دنیا میں ایسے انسانوں، ایسے طالب علموں اور ایسے مالیوں کا تصور کیاجا سکتا ہے؟ کیا ایسے انسان دنیا میں موجود ہیں یا موجود ہو سکتے ہیں؟

جی ہاں ! ہمارا تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ دنیا میں ایسے انسان موجود ہیں. البتہ یہ کہاجاسکتاہے کہ ایسے انسان دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں، شاذ و نادر ہوتے ہیں، آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔
لیکن یہ کیا یہاں تو معاملہ بالکل الٹا ہے، ایسی مجنونانہ حرکتیں کرنے والوں کی اتنی زیادہ تعداد. ذرا اپنے اردگرد دیکھئے یہ کیا ہورہاہے؟ کوئی ہنگامہ برپاہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی، ایک ہجوم ہے، انسانوں کاسمندر ہے، چکاچوند روشنیاں ہیں، آنکھوں کوشرم سے پانی پانی کردینے والے مناظر ہیں، یہ کون ہے؟ حو ا کی بیٹی ہے، اسلام کی بیٹی ہے، مسلمان کی بیٹی ہے. ارے بھئی! ابھی کچھ وقت پہلے ہی کی بات ہے 'یہ شرم وحیاء کی پتلی تھی، ایمان میں سرتاپا ڈوبی تھی، صوم وصلو ۃ کے زیور سے لدی تھی، نظریں شرم سے جھکی تھیں، پردہ و حجاب میں لپٹی اور سمٹی تھی. لیکن آج اسے کیا ہوا. یہ چاند نکلتے ہی اس پر کیا جنون چھا گیا، کیا اس کاایمان ہی رخصت ہوگیا؟ یہ پردہ 'یہ حجاب کہاں گیا؟ آوارہ مردوں کے ہجوم میں اس کا کیاکام، ارے یہ کس کی بہن ہے اس نے توکبھی اپنا ہاتھ کسی غیرمرد کونہ دکھایاتھا اوراب اسے کیاہوا ایک غیرمرد کواپنا ہاتھ پکڑارہی ہے. محض اس لئے کہ اس کے ہاتھوں پرمہندی لگادی جائے۔

اور ذرا ادھردیکھئے! اسے کیا ہوا؟ محرم مردوں کواپنے بازو نہ دکھانے والی نامحرموں کو اپنے بازوتھمارہی ہے، تاکہ اسے چوڑیاں پہنادی جائیں. اوریہاں مسلمان بہنیں یہ کیاکررہی ہے، بیوٹی پارلر میں گھسی ہے 'اپنے چہرے کوبگاڑ رہی ہے 'فطرت کو مسخ کررہی ہے 'کہیں پلکیں بدل رہی ہیں توکہیں بھنویں، کہیں جسم سے بال اکھڑوانے کے لئے تھریڈنگ ہورہی ہے توکہیں فشل اور ماسکنگ اورکہیں مصنوعی ناخن لگ رہے ہیں، کیا یوں اللہ کے دئیے ہوئے قدرتی اور حسین چہرے اور جسم کو پسندنہ کرنے والی اللہ کی رحمت کی مستحق ہوسکتی ہے؟ کیا انہیں اللہ کے نبی کایہ انتباہ بھول گیاہے ... جس میں آپ نے فرمایاتھا ... ' اللہ تعالی نے لعنت کی ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور جو جسم گودتی اور گدواتی ہیں اورجواپنے حسن میں اضافہ کے لئے اپنے دانتوں میں خلا پیدا کرتی ہیں اور اپنی بھنووں اور پلکوں کو کترواتی ہیں اور جواپنے بالوں کے ساتھ نقلی بال لگواتی یااضافہ کرتی ہیں 'وہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرتی ہیں۔ 
اور ہاں! ذرا ان مسلمان نوجوانوں کو بھی دیکھئے! مہینہ بھر صوم وصلوۃ کے پابند رہنے والے، پانچوں وقت مسجدوں کو آباد کرنے والے، ایک ماہ میں کئی کئی قرآن ختم کرنے والے، اعتکاف کے کرنے والے، چاند رات آتے ہی یوں شتر بے مہار ہوگئے جیسے ایمان ان کوچھوکر بھی نہیں گیاتھا، کہیں عورتوں پر ٹکٹکیاں لگائی ہوئی ہیں توکہیں ان پر آوازے کس رہے ہیں، کہیں شیطان کی آواز، موسیقی کی دھنوں پر بڑے بڑے ڈیک لگاکر ناچ کودرہے ہیں 'شریفوں اور مریضوں کا جینا دوبھر کیے ہوئے، توکہیں فلموں اور ڈراموں میں مست ہیں، کہیں سگریٹوں کے مرغولے بنارہے ہیں، توکہیں شراب کے جام لٹائے جارہے ہیں. کہیں ون ویلنگ کے کرتب دکھاکراپنی جوانیوں کو موت کالقمہ بنارہے ہیں. اور یہ فحش عید کارڈوں کے اسٹالوں پر کون کھڑا ہے؟ اسلام کی بیٹیاں بھی اور بیٹے بھی۔
کیا یہ سب اپنی محنتوں کو اپنے ہاتھوں برباد کرنے کے مترادف نہیں؟ کیا یہ جنونیت اور حماقت نہیں؟ خدارا کچھ سوچیں! ہم رمضان میں بنی ہوئی ایمان کی یہ عمارت عید کی ایک ہی رات میں کیوں زمین بوس کرنا چاہتے ہیں؟
اس کے برعکس ہمارے اکابر اور بزرگوں کا طرز عمل تو یہ تھا :حضرت عامر ابن قیس کے بارے میں مروی ہیکہ وہ اختتام رمضان پر رونے لگے، تو لوگوں نے کہا آپ کیوں رورہے ہیں؟ تو فرمایا قسم بخدا متاع دنیا کے ضائع ہونے پر نہیں رورہا ہوں، میں تو روزے میں پیاس کی شدت پر اور ٹھنڈی رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہونے کی مشقت کے ہاتھوں سے چلے جانے پر رورہا ہوں، یعنی روزہ تراویح اور دیگر رمضانی عبادت اب نہ ہونے کا افسوس ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ جب رمضان المبارک کی آخری رات ہوتی تو آپ فرماتے، ہائے کاش مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے وہ شخص جس کی رمضان المبارک میں عبادتیں قبول ہوگئی، تو میں انہیں مبارک باد دیتا، اور اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے، جس کی عبادتیں قبول نہ ہو سکی اور وہ محروم رہا تو ہم اس کی تعزیت کرتے۔

ایک بزرگ کو عید کے دن لوگوں نے غم زدہ دیکھا تو لوگوں نے کہا کہ خوشی اور مسرت کے دن آپ غم زدہ کیوں نظر آرہے ہیں؟ تو فرمایا، بات تو صحیح ہے کہ یہ خوشی اور مسرت کا دن ہے، مگر مجھے اس بات نے غم میں ڈال رکھا ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہو ں جس نے مجھے روزے اور دیگر عبادات کا حکم دیا، مگر مجھے نہیں علم کے میرے یہ اعمال عنداللہ مقبول بھی ہوئے یا نہیں؟

بشر حافی رحمۃ اللہ سے کسی نے دریافت کیا، کہ حضرت بہت سے مسلمان ایسے دیکھے گئے، جو صرف رمضان المبارک میں خوب عبادت اور مجاہدہ کرتے ہیں اور بقیہ سال بھر پھر کچھ نہیں، تو آپ نے فرمایا، ایسااس لئے کہ انہوں نے اللہ کو کماحقہ نہیں پہچانا، اور عارضی صرف رمضان المبارک کی حد تک کی عبادت کس کام کی؟ اصل عبادت اور حقیقی صلاح وتقوی تو یہ ہے کہ مسلمان سال بھر عبادت و ریاضت و مجاہدہ و محاسبہ میں لگارہے۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ انعام کی اس رات کو اس طرح گزاریں کہ انعام دینے والا ہم سے خوش ہو.ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں (عبادت کیلئے) جاگے۔ اس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی۔ لیلۃ التزویہ (آٹھ ذی الحجہ کی رات ) ، لیلۃ العرفہ (9 ذی الحجہ کی رات)، لیلۃ النحر (01 ذی الحجہ کی رات)، شب برأت (پندرہ شعبان المعظم کی رات)، عیدالفطر کی رات۔ اس کے علاوہ ہمارا طرز عمل رمضان کے بعد بھی وہی ہونا چاہیے جو رمضان میں تھا. جس طرح ہم نے پانچوں نمازوں کا اہتمام کیا ہم یہ عہد کریں یہ نیت کریں، اب انشاء اللہ رمضان کے بعد بھی ہم اس کا پورا اہتمام کرینگے، جیسا کہ رمضان میں اہتمام کیا. جس طرح رمضان المبارک میں آپ نے گناہوں سے اجتناب کیا یا کم از کم کوشش کی رمضان کے بعد بھی وہی اہتمام باقی رکھیں. جس طرح رمضان المبارک میں تراویح اور تہجد کا اہتمام کیا اسی طرح رمضان کے بعد بھی تہجد، چاشت اور اشراق کا اہتمام کیا جائے، اور اپنے آپ کو اسی کا عادی بنایاجائے تاکہ بے شمار فضائل واجر عظیم سے مالا مال ہو سکیں. جب رمضان المبارک میں ہم نے تلاوت قرآن کا اہتمام کیا ہے اور کئی ایک قرآن ختم کیا ہے، رمضان کے بعد بھی اہتمام کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے رہیں. جس طرح رمضان میں زکو ۃ و صدقات ادا کرنے کا اہتمام کیا، رمضان کے بعد بھی اس کا پورا اہتمام کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کا کوئی معمول رمضان المبارک میں کرنے رہ جاتا تو آپ شوال میں اس کی قضا کرلیتے تھے؛ مثلا: ایک مرتبہ کسی وجہ سے رمضان کے عشرہ اخیرہ میں اعتکاف نہ کرسکے تو کسی مجبوری کی وجہ سے نو شوال میں اس کی قضا کی بل کہ شعبان میں چھوٹے ہوئے عمل کی قضابھی شوال ہی میں کرنے کی فرماتے (بخاری ومسلم )اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ رمضان کے قضا روزے کی قضا بھی شوال میں شوال کے روزے رکھنے سے پہلے کرلیں.اللہ تعالی ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا اور خصوصی انعامات سے نوازے۔ آمین
(بیہقی فی شعب الایمان: 3540، عن ابن عباس رضی اللہ عنہ) 
اللہ کریم ہمیں عمل کی توفیق بخشے! آمین !!


➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
از قلم✍️ ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی صاحب مالیگاؤں۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے