Header Ads

حضور احسن العلماء مارہروی اور اعلیٰ حضرت

حضور احسن العلماء مارہروی اور اعلیٰ حضرت

(ترسیل بموقع : سالانہ فاتحہ حضور احسن العلماء) 

غلام مصطفیٰ رضوی 
نوری مشن مالیگاؤں 

    یہ اللہ کریم کی شان ہے کہ دین متین کی حفاظت و صیانت کے لیے وہ اپنے مخصوص بندوں کو پیدا فرماتا ہے۔ ان سے تجدید جیسا اہم کام لیتا ہے۔ مجددینِ اسلام کا ایک طویل سلسلہ ہے جن کی خدمات سے اسلامی تاریخ کے صفحات جگمگا رہے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے فضلِ الٰہی سے دین کے مقابل پیدا شدہ فتنوں کا سدِ باب کیا، آپ کا کارِ تجدید بہت سی جہات کو پھیلا ہوا ہے۔ آپ کے عہد میں اسلامی تہذیب و تمدن کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا تھا، عقائد میں بگاڑ کے لیے انگریز کے زیر اثر اندرونی سازشیں الگ بپا تھیں۔ ہر محاذ پر اعلیٰ حضرت نے اسلام و ناموسِ رسالت ﷺ کی حفاظت کی؛ یہی وہ اسباب تھے جن کی بنیاد پر اعلیٰ حضرت کے پیر خانہ (خاندانِ برکات)نے آپ کے مبارک مشن مسلکِ اعلیٰ حضرت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ اور آج بھی خانوادۂ برکاتیہ اسی پر گامزن ہے-

    مجددِ برکاتیت حضرت میر ابوالقاسم سید اسماعیل حسن شاہ جی میاں علیہ الرحمۃ سے لے کر حضور احسن العلماء حضرت سید مصطفیٰ حیدر حسن میاں برکاتی مارہروی علیہ الرحمۃ تک اکابرِ مارہرہ کی سوانح حیات کی وَرق گردانی کر لیجیے۔ مسلکِ رضا، فکرِ رضا، مشنِ رضا، یادِ رضا اور ذکرِ رضا کی فصلِ بہار آراستہ نظر آئے گی۔ ہر جہت سے اکابرِ مارہرہ مطہرہ نے تعلیمات و افکارِ رضا کی اشاعت کی ہے۔ احسن العلماء کا مشن ہی فکرِ رضا کی ترویج و اشاعت تھا۔ جانشینِ احسن العلماء حضرت امین ملت ڈاکٹر سید امین میاں قادری مارہروی (سجادہ نشین خانقاہِ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ) فرماتے ہیں:

    ’’حقیقت و معرفت کی شمع بظاہر خاموش ہے مگر ان کا مِشَن زندہ ہے۔ ان کا مشن ہے ایک نکاتی پروگرام اسلام و سنیت اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت، اس ایک جملے میں گویا سمندر کوزے میں بھر دیا ہے۔‘‘
(اہلسنت کی آواز مارہرہ مطہرہ ،ص ۲۷۲، اکتوبر۱۹۹۹ء)

    اس تناظر میں صاحبزادۂ احسن العلماء حضرت شرفِ ملت سید محمد اشرف میاں مارہروی فرماتے ہیں:

قبل از وصال بھی وہ بیٹوں سے کہہ رہے تھے
احمد رضا سے جو تھی اُلفت حسن میاں کی

    حضرت اشرف میاں، احسن العلماء کی عشق و اُلفت اور محبتِ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں وارفتگی کے تناظر میں لکھتے ہیں: 

  '’اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے حضور احسن العلماء کو جو ایک مخصوص والہانہ محبت تھی، وہ بھی غالباً عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دین تھی۔ مسلکِ اعلیٰ حضرت کی اَساس اُلفتِ رسول اور عظمتِ نبی پر قائم ہے، اسی لیے تو احسن العلماء علیہ الرحمۃ نے وقتِ آخر سے دو تین دن پہلے اپنے بچوں کو جو وصیت کی وہ یہ کہ:

    ’’مسلکِ اعلیٰ حضرت پر مضبوطی سے ڈَٹے رہنا۔ میرا جو مرید اس مسلک سے ہٹ جائے، میں اس کا ذمّہ دار نہیں ہوں۔‘‘

    وہ مسلکِ اعلیٰ حضرت کو عشقِ رسول، عظمتِ نبی اور اپنے بزرگوں کے اَقوال سے جُدا نہیں جانتے تھے۔‘‘
(اھلسنت کی آواز، خصوصی شمارہ:اکابر مارہرہ مطہرہ(حصۂ دوم)،ص ۶۴۲۔۶۴۳، اکتوبر۲۰۱۰ء)

    اعلیٰ حضرت سے اُنسیت اور قلبی تعلق پر حضرت اشرف میاں کا یہ بیان پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:

    ’’شاعروں میں انھیں سب سے زیادہ کلام امام احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ کا یاد تھا۔ ان کا شعر سُناتے وقت فرماتے: ’’سنو! میرے اعلیٰ حضرت کیا فرماتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کا کوئی شعر سناتے۔ کبھی کبھی یوں بھی فرماتے: ’’سنو! بریلی والا کیا کہہ رہا ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کا شعر سناتے۔ اعلیٰ حضرت سے انھیں عشق کی حد تک محبت تھی؛ اور اس کا اظہار وہ خلوت و جلوت، ظاہر و باطن، گفتگو و وَعظ غرض یہ کہ ہر مقام پر کرتے تھے۔ اپنے مُریدوں کے درمیان بھی اور دوسروں کے درمیان بھی۔ وہ اعلیٰ حضرت کا ذکر ضرورتاً نہیں عادتاً کرتے تھے اور عادتاً بھی نہیں محبتاً کرتے تھے اور محبت پر کسی کا اجارہ نہیں۔ اعلیٰ حضرت کا نام لینے سے پہلے *’’چشم و چراغ خاندان برکات‘‘* کا لقب اکثر استعمال فرماتے۔‘‘
(نفس مصدر، خصوصی شمارہ:اکابر مارہرہ مطہرہ(حصۂ دوم)،ص ۵۶۲،اکتوبر۲۰۱۰ء)

    احسن العلماء نے اپنی ایک منقبت میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی شان اور آن بان کو جس حَسین اور دل نشیں انداز میں خراجِ عقیدت پیش فرمایا ہے وہ دیکھنے، پڑھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے، چند اشعار ملاحظہ کریں اور محبت رضاؔ کی تپش اور تیز کریں:

چہرۂ زیبا ترا احمد رضا
آئینہ ہے حق نما احمد رضا

علم تیرا بحرِ نا پیدا کنار
ظلِ علم مرتضیٰ احمد رضا

تیرے مُرشد حضرت آلِ رسول
ان کو تجھ پہ ناز تھا احمد رضا

اپنے برکاتی گھرانے کا چراغ
تجھ کو نوری نے کہا احمد رضا

سُنیت کی آبرو دَم سے ترے
اب بھی قائم ہے شہا احمد رضا

تیری اُلفت میرے مُرشد نے مجھے
دی ہے گھٹی میں پلا احمد رضا

    اس منقبت میں مارہرہ شریف اور بریلی شریف کے اَٹوٹ رِشتے پر روشنی پڑتی ہی ہے؛ ساتھ ہی کارِ رضا کا جو نقشہ سامنے آتا ہے اس کے آئینے میں فیضانِ مارہرہ کی وہ جھلک دکھائی پڑتی ہے جس سے امام احمد رضا کی عظمتوں کی قندیل مزید فروزاں ہوجاتی ہے۔

    امام احمد رضا محدث بریلوی کو اپنے پیر خانہ مارہرہ شریف سے بڑی محبت و عقیدت تھی، اور قلبی تعلق تھا، اس کے جلوے تصانیفِ رضا میں جگہ جگہ نمایاں نظر آتے ہیں، مکاتیبِ رضا میں بھی اُلفتِ سادات مارہرہ شریف جلوہ گر ہے، اور "حدائق بخشش" میں تو حضور غوث الاعظم کے بعد سب سے زیادہ منقبت کے اشعار اکابرِ مارہرہ مطہرہ کی شان میں نظم ہوئے ہیں۔ کلام رضاؔ پر جو فیضِ نوریؔ مارہروی ہے اس کا ذکر کیسے اچھوتے انداز میں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

اے رضاؔ یہ احمد نوری کا فیض نور ہے
ہو گئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا

    بہر حال خانقاہِ برکاتیہ کی مدح میں نثر و نظم رضاؔ کے حوالے سے اگر گفتگو کی جائے تو کثیر صفحات پُر ہو جائیں اور کیفیت یہ ہو ع
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
---

ترسیل: اعلیٰ حضرت ریسرچ سینٹر مالیگاؤں
***
noorimission92@gmail.com

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے