فکری خامی اور مذہب کی تباہی

مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما 

فکری خامی اور مذہب کی تباہی

(1)اصحاب مدارس یعنی انتظامیہ کمیٹی،اساتذۂ کرام اور طلبائے مدارس طویل مدت سے ایسی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں کہ اس حکمت عملی کے سبب مذہب کی بھلائی کی بجائے مذہب کا نقصان ہو رہا ہے۔

(2)غیر مقلدوں کے فتنے دنیا بھر میں بڑھتے جا رہے ہیں۔اس فتنے کی سرکوبی کے لئے فن حدیث میں محنت ومشقت کی ضرورت ہے،تاکہ غیر مقلدوں کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے،لیکن اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں ہے۔عظیم اسلامی مدارس میں تخصص فی الفقہ کا شعبہ موجود ہے،لیکن تخصص فی الحدیث کا شعبہ شاید ہی کہیں موجود ہو۔

(3)دیوبندیوں،رافضیوں،مودودیوں،قادیانیوں ودیگر گمرہوں کے فتنوں کے مقابلہ کے لئے فن عقائد وعلم کلام میں مہارت کی ضرورت ہے،لیکن کسی عظیم ادارے میں تخصص فی العقائد کا شعبہ موجود نہیں۔

(4) یہود و ہنود اور نصاری وملحدین کے وسیع رد کے لئے تقابل ادیان کا شعبہ بھی ہونا چاہئے۔یہ شعبہ بھارت کی بعض یونیورسٹیوں میں موجود ہے،لیکن مدارس اسلامیہ میں اس کا وجود نظر نہیں آتا۔

(5)طلبہ کے تخصص فی الفقہ کی طرف مائل ہونے کا ایک سبب عظیم یہ بھی ہے کہ تخصص فی الفقہ کے فارغین کو مفتی کہا جاتا ہے اور یہ لفظ عوام کے درمیان مشہور ومعروف اور بہت اہمیت کا حامل ہے۔

 علم حدیث سے مشغولیت رکھنے والے کو محدث اور علم کلام سے مشغولیت رکھنے والے کو متکلم کہا جاتا ہے اور عوام کے درمیان محدث ومتکلم کی اصطلاح مشہور ومتعارف نہیں۔

ایسی صورت میں یہ ترکیب اختیار کی جائے کہ تخصص فی الحدیث، تخصص فی العقائد اور تقابل ادیان کے شعبہ جات میں بھی ایک مضمون تربیت آفتا واصول افتا کا شامل نصاب کیا جائے،تاکہ ان شعبہ جات کے فارغین قانونی طور پر مفتی لقب کے مستحق ہو جائیں۔

میں نے تخصص فی العقائد کے شعبہ میں تربیت آفتا اور اصول آفتا کا مضمون اسی لئے شامل کیا ہے کہ اس شعبہ کے فارغین قانونی طور پر مفتی لقب کے حقدار ہو جائیں۔

(6)بڑے مدارس میں مدرسین کے ساتھ حسب ضرورت مبلغین اور محققین بھی رکھے جائیں۔مبلغین عوام کے درمیان عقائد اہل سنت ودیگر دینی امور کی تبلیغ کریں اور محققین ان امور پر تحقیقات کریں،بروقت قوم کو جن چیزوں کی ضرورت ہے۔

(7)مدارس اسلامیہ کے نصاب ونظام میں تبدیلی لائی جائے۔دینی مضامین کے ساتھ عصری مضامین بھی شامل کئے جائیں،ورنہ حکومت ہند اور ساری دنیا کی اصطلاح کے مطابق بنیادی تعلیم (مرحلہ اولی کی عصری تعلیم)سے طلبائے مدارس کی محرومی کا بہانہ بنا کر مدارس پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔جیسا کہ گزشتہ سال 22:مارچ 2024 کو اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو الہ آباد ہائی کورٹ نے سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف قرار دے دیا تھا،پھر سپریم کورٹ نے 5:نومبر 2024 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔

الغرض معاملہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جا چکا ہے۔یہ معاملہ دوسرے انداز میں پھر اٹھایا جا سکتا ہے۔بابری مسجد کا معاملہ بھی اسی طرح ہوا۔بہت بار مقدمات ہوئے۔متعدد مقدمات کورٹ سے خارج ہوئے۔انجام کار مسجد شہید کر دی گئی اور طویل انتظار کے بعد سپریم کورٹ کا جو فیصلہ ایا،وہ یقینا ناقابل فہم ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں زندگی گزارنے والوں کا عصری تعلیم سے محروم ہونا بالکل غلط ہے۔اس جانب سخت توجہ کی ضرورت ہے۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:29:مارچ 2025

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے