لہو خیزی سے چمن آباد ہوگا! قربانیوں سے ارض اقصٰی لالہ زار ہے

لہو خیزی سے چمن آباد ہوگا! قربانیوں سے ارض اقصٰی لالہ زار ہے  

غلام مصطفیٰ رضوی 
نوری مشن مالیگاؤں 

  بُلبُلِ رنگیں نوا کے نغمے مَن کو لُبھاتے ہیں... گُلشن میں رونق آ جاتی ہے... کلیاں چٹک جاتی ہیں... لالہ و گُل مسکرانے لگتے ہیں... چمن میں بہاروں کا ہجوم ہو جاتا ہے... ہر طرف شادابی، درخشانی، ضو فشانی... غرض بہار ہی بہار، سُرور ہی سُرور... 
  ابھی شامِ غم برپا ہو چکی ہے... اے بُلبُل خموش ہو جا... کیا تجھے دکھائی نہیں دیتا! فلسطین کی سرزمین محکوم ہے... غزہ بارود سے بھری فضا میں سانس لے رہا ہے... ہزاروں چراغ جَل اُٹھے تھے، معاً بُجھا دیے گئے... فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے... یہود کے دہشت گرد ہاتھوں سے ہزاروں بچے مَسَل ڈالے گئے... قتلِ عام ہو رہا ہے... غزہ میں گلشن اُجاڑ دیا گیا ہے... ہر گھر میں چراغ بُجھ چکا ہے... ہر گھر میں لالی ہے... شہیدوں کے لہو کی سُرخی ہے:

دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی 
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی 
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی 
گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی 
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے 
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

  سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کو ایک صدی گزری...معاً بعد برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ جمایا... پھر یہودیوں کو سونپ دیا گیا... 1948ء میں باقاعدہ یہودی غاصب ریاست "اسرائیل" کا اعلان کر دیا گیا... فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا گیا... تب سے اب تک فلسطینی مسلمان شہید کیے جا رہے ہیں... زنداں کی تاریک کوٹھیوں میں قید کیے جا رہے ہیں... ننھے ننھے بچوں اور بچیوں کو قید کر کے ان کی زندگی چھین لی جاتی ہے... پوری پوری عمر قیدخانوں میں برباد کر دی جاتی ہے... 
  ہر روز ظلم، ہر دن ستم! ہر لمحہ گرفتاری، جب موقع دیکھا فلسطینی مسلمان شہید کر دیے گئے... لگاتار شہادتیں ہیں... پھر ظلم و ستم سہنے والے اُٹھے... ظلم کے خلاف نبرد آزما ہوئے... قربانیوں سے ارض فلسطین لالہ زار بن چکی ہے... 
  چند روزہ جنگ بندی کے بعد پھر بموں کے دھماکوں سے عام بستیاں لہولہان ہیں... غزہ میں کوئی خاندان ایسا نہیں جہاں شہید نہ ہوئے ہوں؛ ہر گھر سے کفن پوش شہرِ خموشاں میں جا آباد ہوئے ہیں... یقیناً لگاتار دی جانے والی قربانیوں سے ایک صبح ایسی طلوع ہو گی؛ جس کی پشت پر آزادی کا سورج نمودار ہوگا.... جب ظالم اپنے بدترین انجام کو پہنچیں گے... ابھی اہلِ غزہ کے امتحان نازک مراحل سے گزر رہے ہیں... ہر کلی کھلنے سے قبل مَسَل دی جا رہی ہے... ہر چراغ بجھتے محسوس ہو رہے ہیں... شفق کی سرخی چھائی ہوئی ہے... اداس راہیں ہیں... ستارے افقِ فلسطین پر سوگوار ہیں... فضا بارود سے بھری پڑی ہے... عمارتیں ڈھیریوں میں تبدیل ہو چکی ہیں... کہیں چراغ بجھ چکے ہیں، کہیں سرپرست پیوند خاک ہو چکے ہیں... کہیں سہاگ اجڑ چکے ہیں... کہیں گھرانے کے گھرانے مٹ چکے ہیں... کہیں تڑپتے مریض ہیں کہیں نیم جاں بچے و بہنیں... عجب شور ہے... بارودی دھوئیں اور گولیوں کی بوچھار... صبح کا انتظار ہے! وہ صبح جب ظلم کے لیے شام غم کی نوید سُنا دے:

زحمت تنگی دریا سے گریزاں ہوں میں
وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں
***

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے