ملتِ اسلامیہ کی رہنمائی میں امام احمد رضا کی فکری تحریکات

ملتِ اسلامیہ کی رہنمائی میں امام احمد رضا کی فکری تحریکات

غلام مصطفٰی رضوی

 ایک دانش ور کا قول ہے: ’’اسلام نے ملت کی تشکیل و ترتیب کسی اتفاقی اور حادثاتی نسبت سے نہیں بلکہ شعوری سطح پر ایک عقیدہ، اخلاق اور دین کے حوالے سے کی ہے‘‘… در اصل یکساں عقیدہ اور اخلاق رکھنے والے افراد کے اجتماع کو ہی ملت کہتے ہیں، اور مغرب جسے Nation کا نام دیتا ہے، وہ تصورِ ملت سے سراسر الگ ہے، Nation ایک محدود تصور کا نام ہے؛ جس میں بنیادی طور پر طبقاتی حدود، معاشی حدود، لسانی اور نسلی حدود نے ان کی قومیت میں اجتماعیت کا فقدان پیدا کر دیا ہے اور یہ خلیج اس لئے پیدا ہوئی کہ ان کی قومیت کے تانے بانے (Texture) میں مذہب کا دخل نہ تھا؛ جب کہ اسلام کا تصور وحدانیت اور رسالت کا اقرار اجتماعیت پیدا کرتا ہے۔ اس کا جزو لاینفک ’’محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ہے، جس کے ذریعے ملتِ واحدہ تشکیل پاتی ہے، اخلاق اور تمدن بھی اسی کے پر تو ہیں۔ 
  عشق رسول سے جب تک مسلمان معمور رہے کامیابی قدم چومتی رہی، باطل و طاغوتی قوتیں مسلمانوں کے اتحاد کو نہ توڑ سکیں، اس لیے کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت نے مسلمانوں کو لسانی، ارضی، نسلی وغیرہ حدود و قیود سے آزاد کر کے ملت کی تشکیل کا احساس و شعور عطا کیا تھا اور جب اس محبت کو دلوں سے نکالنے کے لیے اقوامِ مغرب بالخصوص یہود و نصاریٰ نے داخلی و خارجی ذرائع سے منصوبے تیار کئے تو ملت افتراق و انتشار کی راہ پر جاپڑی۔اقبالؔ نے ملت کی اساس جسے وہ روشنی سے تعبیر کرتے ہیں ’’عشق نبوی‘‘ کو قرار دیا ؎

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے ﷺ اُجالا کر دے

  امام احمد رضا مسلمانوں کی اجتماعیت کے خواہاں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اسلام کے احکام کا پابند ہوجائے اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قلب و نظر اور فکر و خیال میں بسالے تا کہ پھر ماضی سے رشتہ استوار ہو جائے۔ امام احمد رضا کا ایک پیغام تھا ’’محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘... یہی امام احمد رضا کا نقطۂ نظر (Point of view) تھا۔ وہ قافلۂ اسلام کے حُدی خواں ہیں۔ ان کا شعور، اُلفتِ مصطفی علیہ التحیۃ والثناء سے عبارت ہے۔ آپ فرماتے ہیں ؎

دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا 

  یہ شعر بظاہر مختصر ہے لیکن اس میں وحدتِ ملّی کا پورا فلسفہ مستور ہے۔ ایک جگہ آپ رقم طراز ہیں: ’’ایمان ان کی (سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی) محبت و عظمت کا نام اور مسلمان وہ، جس کا کام ہے، نام خدا کے ساتھ ان کے نام پر تمام…‘‘ امام احمد رضا نے ملت کی تشکیل تمام شعبۂ حیات کو مدِ نظر رکھ کر محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر کی۔ وہ بیسویں صدی کا ابتدائی دور تھا۔ اس وقت بہت سے فرقے وجود پا چکے تھے، دنیا میں معاشی انقلاب رونما ہو رہا تھا-بلادِ یورپ و مغرب مضبوط معیشت کے قیام کے لیے عالمی منصوبے ترتیب دے رہے تھے، وہ دنیا پر سائنس و ٹکنالوجی اور دیگر علوم و فنون کے ذریعے معاشی استحکام اور غلبہ چاہتے تھے- قومِ یہود عالمی نظامِ بینک کو کنٹرول کرنا چاہ رہی تھی۔ اس وقت امام احمد رضا محدث بریلوی نے مسلمانوں کو اپنی مضبوط معیشت کے قیام کے لیے دعوتِ فکر دی تھی، اور اس سلسلے میں منصوبہ سازی کی تھی (تفصیل کے لیے آپ کی تصنیف ’’تدبیر فلاح و نجات و اصلاح‘‘ دیکھیں) ٦٥؍ سے زائد علوم و فنون پر مشتمل علمی ذخائر قوم کو عطا کیے؛ جن کا ماخذ ومنبع قرآن مقدس اور احادیث طیبہ تھے۔ 
  امام احمد رضا نے اپنی تعلیمات میں سائنس و ٹکنالوجی اور دیگر علوم و فنون کی بنا ’’د ین و ایمان‘‘ پر رکھی- بدلتے ہوئے افکار کے دھارے میں تعلیماتِ امام احمد رضا مسلمانوں کی متاعِ گم گشتہ کو واپس دلا رہی ہیں، وہ متاع ’’محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ہے جو مسلمانوں کو جہاں گیر و جہاں باں بناتی ہے۔ متفرق فکر و خیال اور نظریات کے طوفان نے ملت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد: ’’ہر لٹر یچر اپنے ساتھ فکر و خیال کی ایک دنیا لے کر چلتا ہے؛ اس لیے گزشتہ صدی میں مغربی نصاب نے ہمارے ملی اور فکری ڈھانچہ کو بکھیرکر رکھ دیا…‘‘ اسی لیے امام احمد رضا نے مغربی نظامِ تعلیم کی مذمت کی ہے، فرماتے ہیں: ’’ہیہات ہیہات (افسوس افسوس) اسے علم سے کیا مناسبت، علم وہ ہے جو مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ترکہ ہے، نہ وہ جو کفار یونان کا پس خوردہ-‘‘
 امام احمد رضا نے ہر اس فکر کی نشان دہی کی جس کے ذریعے فکرِ اسلامی کو نقصان پہنچ رہا تھا یا جو ایمان و عمل کو کم زور کرنے کا موجب تھی۔ اسلامی خیالات کو تب وتاب عطا کرنے والے لٹریچر آپ نے عطا کیے؛ جن پر اب عصری اداروں اور یونی ورسٹیوں میں ری سرچ ہو رہی ہے۔ عصر حاضر میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ عالمی زبانوں میں امام احمد رضا کی کتابوں کے تراجم کیے جائیں اور اقوام عالم میں انہیں عام کیا جائے۔ اس سلسلے میں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی و عربی زبانوں میں بھی امام احمد رضا کی تصانیف کی اشاعت کی ضرورت ہے؛ بعض عالمی اداروں نے پیش رفت کی ہے جو لائق تحسین ہے۔ 
 عالمی سطح پر مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے اور تعلیم و تعلّم سے ٹوٹے ہوئے سلسلے کی استواری کے لیے امام احمد رضا کے پیغام و نظریات کا ابلاغ از حد ضروری ہے۔ برطانوی دانش ور کیمبرج یونی ورسٹی برطانیہ کے نو مسلم پروفیسر ڈاکٹر محمد ہارون (م۱۹۹۸ء) فرماتے ہیں:
  "حضرت امام احمد رضا بریلوی اس علمی روایت کے لیے سامنے آئے جو مغرب میں اپنی موت مرچکی ہے۔ ان کا مقصد علم کو ممکنہ حد تک وسیع کرنا تھا۔ ایسا علم جس کا محور اسلامی فنون سے پھوٹنے والی دانش و حکمت تھی۔ ایسا علم جس کا ایک ہزار سالہ قدیم روایت سے گہرا رابطہ تھا…‘‘ امت مسلمہ کی بازیابی کے لیے امام ممدوح نے اس وقت کام یاب کاوشیں کیں جب مغرب نے شمشیر و سناں کی بجائے علمی و تہذیبی اور فکری و عمرانی حملے ملت پر کیے۔
 وسائل علم ہوں یا حیاتیاتی شعبہ جات ہر جگہ تہذیب و تمدن، ثقافت و روایات کے گہرے اثرات ملتے ہیں۔ مادیت اور مغربی علوم کے ساری دنیا میں بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے ان کی تہذیب و کلچر کے اثرات رفتہ رفتہ مسلمانوں پر ہونے لگے، امام احمد رضا اسی لیے ہر سطح پر اور ہر جہت سے مسلمانوں کو اسلام کا تابع و پابند دیکھنا چاہتے تھے کہ جب زندگی اسلامی احکام کے مطابق بسر ہوگی تو دوسروں کی تہذیب، تمدن، آئیڈیالوجی اور نظریات مسلمانوں کی فکر و بصیرت اور قلب و ذہن پر مرتسم نہ ہوسکیں گے۔ اس نہج پر امام احمد رضا کی تصنیفات و تالیفات کی ترویج و اشاعت اور ان کی تشہیر و ترسیل وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ پھر امام احمد رضا کے پیغامات کے ذریعے عامۃ المسلمین میں محبت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پھونکی جاسکے اور ملتِ واحدہ کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں امت مسلمہ میں فکری اتحاد اور قوتِ عمل کی بے داری کے لیے آپ کے علمی و فکری شہ پارے مطالعہ کیے جائیں تا کہ حوصلوں کو عزم جواں ملے۔
٭٭٭
Noori Mission Malegaon

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے