(بموقع یوم رضا ۱۰؍شوال المکرم)
غلام مصطفیٰ رضوی
ہندوستان کی سرزمین پر عہد اکبری میں ’’دین متین ‘‘ کے مقابل ’’ دین الٰہی ‘‘ کاخود ساختہ فتنہ اُٹھا ، توحید باری سے متعلق بہت سے خیالات گڑھ لیے گئے اور کھلم کھلا شریعت کے احکا م کو کچلا گیا، علماے سو کا طبقہ صاحبانِ اقتدار کی مدح سرائی میں گم تھا اور شعارِ شرکیہ بھی پھیلاے جارہے تھے، اس وقت جب کہ حق کہنا قابلِ گردن زدنی جرم تھا -امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے آوازِ حق بلند کی اوراصلاح کا فریضہ انجام دے کر فتنوںکا خاتمہ کیا ؎
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار
اسی ہند میں چودھویں صدی ہجری میں انگریزوں کی سازشوں کے نتیجے میں؛ ان کے تیار کردہ افراد اسلامی لبادہ زیب تن کر کے ملّت اسلامیہ میں انتشار و افتراق کا زہر گھول رہے تھے ۔ فتنوں کی اِک بھیڑ تھی ۔ ایسی کتابیں لکھی اور چھاپی جارہی تھیں جن میں اللہ و رسول عزو جل وﷺ کی شان میں سخت اہانت و گستاخی کی گئی تھی ۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ انھیں عقیدہ جان کر ان کی تشہیربھی کی گئی ،قادیانیت کا الگ زور تھا، اس دور میں عقیدہ و ایمان کی اصلاح کے لیے اللہ رب العزت نے امام احمد رضا بریلوی کو منصبِ تجدید واصلاح پر فائز کیا ۔ تجدید و اصلاح کی ضرورت و اہمیت سے متعلق پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد لکھتے ہیں :
’’ دُنیا اچھی بری چیزوں سے بھری پڑی ہے ، زندگی بہت مختصر ہے ، انتظار نہیں کر سکتی ،آن کی آن میں اچھی چیزوں کی اچھائی اور بری چیزوں کی برائی کا اندازہ لگانا عقل کے بس کی بات نہیں ، وہ بینائی سے محروم ہے اور تجربوں کی محتاج ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے مجبور بندوں پر کرم فرمایا ۔انبیا علیہم السلام کو بھیجا ، آخر میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ، اور وحی نے اس مشکل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آسان کردیا اور وہی آسان کر سکتی تھی ، پھر قرآن و سنّت کا پیغام پہنچانے والے پیغام پہنچاتے رہے ، اچھی اور بری چیزوں کو بتاتے رہے اور اللہ کے بندوں کی رہنمائی کرتے رہے ۔ انھیں رہنمائوں میں امام احمد رضا خاں محدث بریلوی (م ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ ء ) کی شخصیت نہایت ممتاز ہے ۔ ‘‘ (خوب و ناخوب ، نوری مشن مالیگائوں،ص ۲ )
امام احمد رضا نے جہاں عقیدہ و ایمان کی حفاظت کی؛ وہیں معاشرے میں پھیل رہی برائیوں کا سدِباب کیا ۔ عہد امام احمد رضا میں متعد درُخ سے اسلامی معاشرے کوپراگندہ کیا جارہا تھا ۔ مثلاً :
(۱) ہندوئوں سے اتحاد کی سازش رچی گئی ، اس کے ذریعہ ان کے شعار مسلمانوں میں عام کیے جارہے تھے ان کے مراسم میں مسلمانوں کو قصداً شریک کیا جارہا تھا ۔
(۲) ایسے افراد جو شریعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے ، احکام شرعیہ کے پابند نہیں تھے خود کو صاحبِ طریقت قرار دے کر گمرہی پھیلا رہے تھے اور تصوف کو بدنام و داغدار کررہے تھے ۔
(۳) عوام میں طرح طرح کے اوہام و نظریات باطلہ پائے جاتے تھے ۔
(۴) سجدۂ تعظیمی کو جائز قرار دے دیا گیا تھا اور ایک مشہور خانقاہ کے والیان نے تو اسے رواج دے رکھا تھا ۔
(۵) محرم اور اعراس میں غیر شرعی کام انجام دیے جاتے اور انھیں جائز تصور کیا جاتا ، مزامیر (آلاتِ موسیقی ) کے ساتھ قوالیوں کا عام رواج تھا ۔
امام احمد رضانے ان تمام امور کی بیخ کنی فرمائی ۔ ہر ہر موضوع پر مستقل کتاب تصنیف کی ۔ آپ کی خدمات کا نمایاں باب اصلاح ہے ۔ جس پر سیکڑوں کتابیں شاہد عدل ہیں ، آپ نے بدعات و منکرات کے سدِباب میں اپنے قلم سے بھر پور کام لے کر کتنے ہی فتنوں کا قلع قمع کیا اور ایک صالح اسلامی معاشرہ تشکیل دیا ۔ آپ نے مشرکین سے ایسے اتحاد کو غلط قرار دیا جس میں دینی حمیت جاتی رہے، ایک صدی قبل جب کہ انگریز کے خلاف تحریک میں مشرکین سے اتحادکیا جا رہا تھا؛ مراسم شرکیہ دھڑلے سے کیے جا رہے تھے، امام احمد رضا نے انگریز کے ساتھ ساتھ مشرکین سے اتحاد کی بھی مخالفت کی اور سچا پکا بندۂ مومن بننے کی تلقین کی۔ مراسم شرکیہ کے خلاف بکثرت فتاوے صادر فرمائے، مشرکین کی بیسیوں سازشوں سے باخبر کیا، اس پہلو سے ان کی درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ غرض یہ کہ آپ نے عوام کی بھی اصلاح کی اور خواص کی بھی، علما و مشائخ اور صوفیا کی بھی ۔ شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے والوں کی خبر لی ۔
٭ ٭ ٭
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں