عشق نبوی اور مسلمانان اہل سنت کا امتحان

مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما 

عشق نبوی اور مسلمانان اہل سنت کا امتحان 

(1)بادشاہ اپنے وزیر اعظم کو حکم فرمائے کہ آپ ایک تاج محل بنائیں۔یہ حکم پا کر وزیر اعظم نے امانت داری کے ساتھ خوب دل لگا کر سلطانی فیصلے کی تکمیل کی۔اس نے انجنیئروں سے تاج محل کا نقشہ بنوایا،معماروں اور مزدوروں کو تعمیراتی خدمات پر مامور کیا،تعمیر کے لئے ضروری ساز وسامان مہیا کیا۔ایک مدت بعد تاج محل بن کر تیار ہو گیا،پھر وزیر اعظم نے تاج محل کی تزئین وآرائش کرنے والوں کو بلایا۔سبھوں نے سپرد کردہ خدمات کو سرانجام دیا۔کسی نے رنگائی کا کام کیا۔کوئی دروازہ وکھڑکی درست کیا۔الغرض ہر ایک خادم وملازم نے اپنا فرض منصبی نبھایا۔کوئی دیکھ بھال کر رہا ہے،کوئی تاج محل کی صفائی و ستھرائی کی خدمت انجام دے رہا ہے۔کوئی پودوں کو پانی دے رہا ہے۔الحاصل خدام کی ایک طویل فہرست ہے اور سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف و مشغول ہیں۔

 تاج محل بنانے کا فیصلہ بادشاہ نے کیا اور پھر سارے خدمت گاروں سے کام کروا کر تاج محل کو ایک عجوبہ روزگار عمارت کی شکل دلوانے والا وزیر اعظم ہے۔ معماران وخدمت گاران جنہوں نے دیانت داری کے ساتھ تاج محل میں اپنی مقررہ خدمات انجام دیں،وہ تمام بھی یقینا قابل تعریف ہیں،لیکن اصل فیصلہ بادشاہ کا ہے اور عملی کردار وزیر اعظم کا ہے۔تمام خدام بھی قابل تعریف اور قابل محبت ہیں،لیکن اصل شکریہ تو بادشاہ اور اس کے وزیر اعظم کا ادا کرنا چاہئے،کیوں کہ یہ جلوہ انہیں کا ہے۔اگر بادشاہ فیصلہ نہ کرتا تو تاج محل نہ بنتا۔اسی طرح وزیر اعظم امانت داری اور محنت ولگن سے کام نہ کرواتا تو تاج محل ایسا شاندار نہ بنتا،یا بن ہی نہیں پاتا،کیون کہ آج کل کے منتری تو سارا بجٹ ہی ہڑپ کر جاتے ہیں اور محض پروجیکٹ کا خاکہ کاغذوں پر یا سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے۔

(2)اسی طرح مذہب اسلام یعنی وہ مذہب جس کی تابع داری دنیا وآخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے اور نجات اخروی تو اسی پر موقوف ہے۔یہ دین ومذہب ہمیں رب تعالی نے عطا فرمایا اور دربار خداوندی تک ہماری رسائی نہیں۔حضور اقدس نور مجسم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بارگاہ الٰہی سے لا کر ہمیں یہ دین ومذہب سپرد فرمائے۔نبی ورسول ہی کے ذریعہ ہی بندوں کو آسمانی مذاہب موصول ہوئے ہیں۔

پس سب سے زیادہ محبت اس خدا سے کرنا ہے جس نے ہمیں نجات اور نعمت والا مذہب عطا فرمایا کہ ہم اس پر عمل کر کے جہنم کے عذاب سے محفوظ ہو جائیں اور جنت کی ایسی ایسی نعمت پائیں کہ جس کا تصور بھی عقل انسانی نہ کر سکے۔

اور مخلوقات میں سب سے زیادہ محبت اپنے رسول کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم سے کرنا ہے جن کے ذریعہ ہمیں یہ نعمت اور نجات والا دین ومذہب موصول ہوا۔ہم تو عام بندے پیں۔اللہ تعالی تک براہ راست ہماری رسائی نہیں۔

ان کے بعد تمام خدام دین متین سے بھی محبت کرنا ہے،کیوں کہ دین ومذہب کی تزئین وارائش،حفاظت وصیانت،دیکھ بھال، نگرانی ونگہبانی اور صفائی وستھرائی میں ان کی بھی خدمات ہیں۔

(3)پندرہویں صدی میں تمہارا حال مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم نے اپنے دلوں میں فلاں وفلاں کو بسا لیا ہے اور زبانی طور پر اللہ ورسول سے محبت کا دعویٰ بلند کر رہے ہو۔ہو سکتا ہے کہ یہ میری غلط فہمی ہو۔بہتر یہی ہے کہ یہ میری غلط فہمی ہو،لیکن تمہاری حقیقت تم پر ضرور واضح ہو گی۔تم ایسا کرو کہ اپنے دلوں کو محبت الٰہی اور عشق نبوی کی جلوہ گاہ بنا لو اور پھر محبت کے جلوے خدام دین کی طرف منتقل کرو۔میرا الزام تو یہی ہے کہ تم اس کے بر عکس کر رہے ہو۔ہمارا اور تمہارا سب سے عظیم اختلاف اسی موضوع پر ہے۔

(4)احباب اہل سنت ایسا سمجھتے ہیں کہ میں ایک قلم کار ہوں اور مضامین ومقالات رقم کرنا میرا مشغلہ ہے،حالاں کہ ایسا نہیں۔

ایک مچھیرا سمندر کے پاس جاتا ہے،سمندر میں جال پھینکتا ہے اور پھر اسے نکال کر دیکھتا ہے کہ اس میں کتنی مچھلیاں آئیں،پھر وہ مچھلیوں کو سمیٹ کر دوبارہ جال پھینکتا ہے اور وہ ایسا ہی کرتا رہتا ہے۔

اسی طرح میں کشکول لے کر دربار اعظم کے پاس بہ ہزار ادب وتعظم کھڑا رہتا ہوں۔ایک تحریر رقم کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ حضور اقدس حبیب کبریا علیہ التحیۃ والثنا نے میرے کشکول میں کیا عطا فرمایا۔دنیاوی نعمتوں کا تو علم ہو جاتا ہے۔اخروی نعمتوں کا علم اللہ ورسول کو ہے۔(عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)

میں تو اللہ تعالی سے دعائیں کرتا رہتا ہوں کہ دربار اعظم میں میری گداگری سلامت رہے،لیکن شیطان کو بھلا یہ کیسے منظور ہو گا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ نفس امارہ بھی ابلیس لعین کی طرف داری میں لگا رہتا ہے۔اب عقل اسلامی تنہا جس قدر مقابلہ کر سکے،کر لے۔ہاں،توفیق الہی مدد فرمائے تو بیڑا پار ہو جائے۔

فضل الہی اور احسان مصطفوی سے وقت موت تک اعزاز گداگری سلامت رہا تو ان شاء اللہ تعالی میری آخرت بھی نعمتوں سے مالامال ہو گی۔

میں تو کہتا ہوں کہ آپ بھی ادھر ہی آ جاؤ جدھر میں ہوں،یا پھر تمہاری مرضی۔تم تو خود ہی عقل مند ہو۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:04:ستمبر 2025


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے