کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے اپنے دوست کو کچھ رقم بطور قرض کے دیا مدت لگ بھگ 12 مہینے ہو گئے اور اب تک کوئی امکان نہیں کہ وہ پیسے کب تک ملیں گے تو کیا اس رقم کی زکوۃ ادا کرنے کا حکم ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں،
العارض: عرش محمد،آمنہ مسجد بنگلہ بازار لکھنؤ،
(وعلیکم السلام و رحمة الله و بركاته)
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَةَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ: صورت معروضہ میں حکم یہ ہے کہ قرض میں پھیلے ہوئے روپے کی زکوۃ فرض ہے، لیکن ادائیگی اس وقت واجب ہوگی جب نصاب بھر یا نصاب کا پانچواں حصہ مل جائے، جتنے سال گزرے ہونگے سب کا حساب لگا کر زکوۃ ادا کریں،جیسا کہ درمختارمیں ہے:فتجب زكاتها إذا تم نصابا و حال الحول لكن لا فوراً بل عند قبض أربعين درهما من الدين القوي كقرض(الدرالمختار،ج3،كتاب الزكاة، باب زكاة المال،صفحہ236)،اور اسی طرح اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے لکھا ہے : جو روپیہ قرض میں پھیلا ہے اس کی بھی زکوۃ لازم ہے مگر جب بقدر نصاب یا خمس نصاب وصول ہوا اس وقت ادا واجب ہوگی جتنے برس گزرے ہوں سب کا حساب لگا کر١ھ (فتاوی رضویہ مترجم ج10،صفحہ 171)،
وَاللهُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وَسَلَّم
كَتَبَهُ
عبده المذنب محمد شبیر عالم الثقافي غفرله
٢٨/شعبان المعظم ١٤٤١ھ مطابق ٢٣ اپریل ٢٠٢٠ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں