بسااوقات فکری خامیاں انسانی دل ودماغ میں سرایت کرجاتی ہیں اور انسان کو یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ہمارا یہ نظریہ غلط ہے یاصحیح؟بسااوقات لوگ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں اوراکثر جہل مرکب میں مبتلا ہوتے ہیں۔دونوں ہی خطا وار ہیں،لیکن ان کے انداز تکلم،لب ولہجہ اورزبان وبیان سے یہ آشکارا ہوتا ہے کہ مفکرین مذکورخود کو لغزش زدہ نہیں، بلکہ خود کو تجربات میں پختہ اور صالح افکار وخیالات کا حامل گمان کرتے ہیں۔ہمیں اپنے افکارونظریات کواسلامی نظریات کے موافق کرنا چاہئے۔اس فلسفیانہ طرز کلام سے قارئین کو اصل حقائق سمجھنے میں کچھ دشواری ہوگی،اس لیے مسلم سماجیات سے ایک دو مثالیں سپردقرطاس کی جاتی ہیں،تاکہ وہ مرض مہلک بھی دور ہو، اورہمارا مدعا بھی قارئین کوذہن نشیں ہوجائے۔
اسلام نے مومنین کے حق میں عالم گیر اخوت ومحبت کا نظریہ پیش کیا۔ہرمسلمان ہمارا بھائی ہے۔خواہ وہ کوئی ہو، اور کہیں کاہو۔یہ نظریہ بھی حق ہے کہ:دانے دانے پہ لکھاہے کھا نے والے کا نام۔اب مختلف مقامات پریہ صدا گشت کرتی نظر آتی ہے کہ ہم نے اپنے یہاں دارالعلوم قائم کیا،لیکن ہمارا کوئی فائدہ نہیں۔باہر کے بچے آتے ہیں اورپڑھ کر چلے جاتے ہیں۔کبھی کبھی یہ آواز بھی سنائی دیتی ہے کہ باہر کے ائمہ ومدرسین ہمارے یہاں آکر حصول معاش کرتے ہیں اور یہاں کے علما وحفاظ کو ادھر ادھر جانا پڑتا ہے۔ایسے مفکرین کوسوچنا چاہئے کہ رزق کا شعبہ تمہارے پاس نہیں۔ اللہ تعالیٰ خالق ورازق ہے۔جس کی تقدیر میں جہاں کا رزق ہے،وہ وہاں جائے گا اور اپنا رزق پائے گا۔نہ آپ کے ہاتھ میں رزق کا معاملہ ہے۔نہ کوئی اس آمدو رفت کوروک سکتا ہے۔ہاں،ماحول میں نفرت وعصبیت ضرور بھر سکتا ہے۔یہی سب کچھ مختلف علاقوں میں ہواکہ نفرت پھیل گئی،لیکن صاحب رزق کی آمدورفت ختم نہ ہوسکی۔یہ خدائی نظام ہے،ٹوٹ نہیں سکتا۔
اے مفکرین بے شعور! تمہارے یہاں کے بچے باہر جاکر تعلیم حاصل کرتے ہیں،جس پر تم فخرکرتے ہوکہ ہمارے بچے اشر فیہ،امجدیہ،علیمیہ،منظراسلام،ثقافہ،سعدیہ وغیرہ میں تعلیم پارہے ہیں۔اس وقت کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے بچے تودوسروں کے یہاں جاکر تعلیم پارہے ہیں،لیکن جب دوسروں کے بچے تمہارے یہاں آکر تعلیم پاتے ہیں تو شیطان تمہارے پیٹ میں کڑوا درد ڈال دیتا ہے۔تم بیرون ممالک میں جاکر تحصیل معاش کروتو قابل فخر بات ہے۔کوئی تمہارے شہر میں آکر تحصیل معاش کرے توغلط ہے،جب کہ تم تودوسروں کے ملک میں جاکر روزی روٹی کمارہے ہو۔
دراصل یہاں،وہاں اورہمارا،تمہارا کی تفریق اسلام کی عالمگیراخوت وبھائی چارگی کے نظریہ سے سخت متصادم ہے۔ایسی فکروں کو سیراب کرنے والے لوگ مفکر نہیں،بلکہ فسادی ہیں۔جامعہ اشرفیہ:مبارک پورمیں مبارک پور کے بچے دوفی صدبھی بمشکل ہوں گے،لیکن حضور حافظ ملت قدس سرہ العزیز کے عہدسے آج تک اہل مبارک پور جامعہ کا آدھا خرچ اپنے کاندھوں پراٹھائے ہوئے ہیں۔بقیہ نصف خرچ میں ممبئ کا بڑا حصہ شامل ہے۔جامعہ کے لیے مبار ک پوری عورتوں کا اپنے زیورات نذرکرنا،مردوں کا اپنی گھڑی،انگوٹھی وغیرہ پیش کرنا،یہ سب آنکھوں دیکھا حال ہے۔
مسلمانان مبار ک پور علی الاعلان کہتے ہیں کہ اگر کمائیں گے نہیں تواشر فیہ کو کیا دیں گے۔سب کو معلوم ہے کہ جامعہ میں ملک بھر کے طلبہ زیر تعلیم ہیں،لیکن یہاں، وہاں کی بات کبھی سننے میں نہیں آئی۔بھائیو! شیطان ہمارے دل ودماغ میں چونچ مارتا ہے۔ اسی شیطانی چونچ کے سبب شیطانی سوچ جنم لیتی ہے،پھر ہم اورآپ اس ابلیسی نظریہ کی پرورش کرتے ہیں اور بے حیا بن کر اس کوسماج میں پھیلاتے اورپروان چڑھاتے ہیں: }اِنَّ الشَّیطٰنَ لِلاِنسَانِ عَدُوٌّمُّبِینٌ{
بتان رنگ وخوں کوتوڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ ایرانی رہے باقی،نہ تورانی نہ افغانی
(ڈاکٹر اقبال)
طارق انور مصباحی (کیرلا)
جاری کردہ:05:جون 2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں