Header Ads

خطیب اعظمِ پاکستان ،مقررِ شیریں بیان، مصلح امت، محسن اہل سنت ، عظیم مفکر و مدبر، مبلغِ اسلام، حضرت علامہ مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

💠 سلسلہ (شخصیت شناسی)کی قسط نمبر :30حاضر ہے💠  
🌺خطیب اعظمِ پاکستان ،مقررِ شیریں بیان، مصلح امت، محسن اہل سنت ، عظیم مفکر و مدبر، مبلغِ اسلام، حضرت علامہ مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ🌺

🌹نام و نسب:

 خطیب ِاعظم پاکستان حضرت علامہ حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نقشبندی،بن حاجی شیخ کرم الہی، بن شیخ اللہ دتا ،بن شیخ امام الدین (رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)۔

🌹تاریخ ِ ولادت:

 آپ 1929ء کو کھیم کرن (ضلع ترن تارن) مشرقی پنجاب (انڈیا ) میں پیدا ہوئے 
۔

🌹تعلیم و تربیت:

 آپ نے ابتدآئی تعلیم سے لیکر مڈل تک تعلیم کھیم کرن میں حاصل کی ،اس کے بعد اپنے خاندان سمیت کھیم کرن سے اوکاڑا (پنجاب پاکستان) منتقل ہو گئے۔ یہاں دار العلوم اشرف المدارس، اوکاڑہ کے شیخ الحدیث و التفسیر شیخ القرآن مولانا غلام علی اشرفی اوکاڑوی اور مدرسہ عربیہ اسلامیہ انوارالعلوم ملتان کے شیخ الحدیث والتفسیر غزالی دَوراں سید احمد سعید کاظمی سے تمام متدادل دِینی علوم پڑھے اور درسِ نظامی و دورۂ حدیث کی تکمیل پر اسناد حاصل کیں۔

🌹بیعت و ارادت:

شیخ المشائخ پیر میاں غلام اللہ شرقپوری المعروف ثانی صاحب قبلہ برادر خورد شیرِ ربّانی اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری ( سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ )- میاں شیر محمد شرقپوری نے حاجی میاں کرم الہٰی کومولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی کی ولادت سے قبل ہی ان کے فضل و کمال کی بشارت دے دی تھی آپ کے والدین نے بھی آپ کی ولادت سے قبل مبارک خواب دیکھے اور بیان کیے ۔

🌹حالات و خدمات:

اپنے پیرو مرشد حضرت ثانی صاحب شرقپوری اور علمائے اہل سنّت کے ساتھ علمی طلب کے ابتدائی زمانے میں تحریک پاکستان میں بھرپورحصّہ لیا اور تقسیم ہند تک سرگرم عمل رہے۔ 1947ء میں ہجرت کرکے اوکاڑہ آ گئے اور جامعہ حنفیہ اشرف المدارس قائم کیا جس کے بانیان اور سرپرستوں میں سے تھے۔ جامع مسجد مہاجرین منٹگمری ( ساہیوال ) میں نماز جمعہ کی خطابت شروع کی اور بِرلا ہائی اسکول اوکاڑہ میں شعبۂ دینیات کے سربراہ رہے۔
۔

🌹تحریک تحفظ ختم نبوت:

53۔1952ء میں تحریک ختمِ نبوت میں محض سید عالم ختمی مرتبت حضور ﷺ کی عزت و ناموس کے لیے بھرپور حصّہ لیا۔ ضلع منٹگمری( ساہیوال ) اور پنجاب کی سرکردہ شخصیت تھے، حکومت نے قید کر دیا۔ دس ماہ منٹگمری جیل میں رہے۔ اسیری کے ان ایّام میں مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی کے دو فرزند تنویر احمد اور منیر احمد جن کی عمر بالترتیب تین سال اور ایک سال تھی، انتقال کر گئے۔ یہ دونوں مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی کے پہلے فرزند تھے۔ ان کی وفات کے سبب گھریلو حالت پر یشان کُن تھے۔ کچھ با اثر لوگوں نے ڈپٹی کمشنر ساہیوال سے مل کر سفارش کی۔ ڈپٹی کمشنر نے جیل کا دَورہ کِیا۔ گرفتار شُدگان سے ملاقات کی اور مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی کو بالخصوص الگ بُلاکر کہا ’’ بچوں کی وفات کی وجہ سے آپ کے گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ میرے پاس آپ کے لیے بہت سی سفارشیں ہیں۔ آپ معافی نامے پر دستخط کر دیں۔ آپ کا معافی نامہ عوام سے پوشیدہ رکھا جائے گا اور آج ہی آپ کو رہا کر دیا جائے گا۔‘‘ مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نے جواباً کہا کہ ’’ مَیں نے عزت و ناموسِ مصطفی ﷺ کے لیے کام کیا ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ آخری نبی ہیں، لہذا معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بچے اللہ کو پیارے ہو گئے، میری جان بھی چلی جائے تب بھی اپنے عقیدے پر قائم رہوں گا اور معافی نہیں مانگوں گا۔ ‘‘ اس جواب پر حکومت برہم ہوئی اور مزید سختی کی گئی، دفعہ 3 میں نظر بند کر دیا گیا اور ملاقات وغیرہ پر بھی سختی سے پابندی تھی۔ مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نے آخر وقت تک صبر و استقلال سے تمام صعوبتیں برداشت کیں۔ اوکاڑہ میں قیام کے دوران دِینی و مذہبی اور ملی سماجی امور میں ہمیشہ نمایاں طَور پر حصّہ لیتے رہے ۔

🌹کراچی آمد:

1955ء میں کراچی کے مذہبی حلقوں کے شدید اصرار پر کراچی آئے۔ کراچی کی سب سے بڑی مرکزی میمن مسجد (بولٹن مارکیٹ ) کے خطیب و امام مقرر ہوئے اور ہمہ جاں، تادمِ آخر شب و روز دِین و مسلک کی تبلیغ میں مصروف رہے۔ میمن مسجد کی امامت و خطابت کے بعد تقریباً تین برس جامع مسجد عیدگاہ میدان اور سَوا دو سال جامع مسجد آرام باغ اور بارہ برس نور مسجد نزد جوبلی مارکٹ میں بلامعاوضہ خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے اور نماز جمعہ پڑھاتے رہے۔ ہر مقام پر زبردست اجتماع ہوتا۔ ان تمام مساجد میں بالترتیب تفسیرِ قرآن کا درس دیتے رہے اور تقریباً 29 برس میں نو پاروں کی تفسیر بیان کی۔ اس دوران 1964ء میں، پی ای سی ایچ سوسائٹی میں مسجد غوثیہ ٹرسٹ سے ملحق( جس کے آپ چئیر مین بھی تھے) ایک دِینی درس گاہ قائم کی جس کا نام دار العلوم حنفیہ غوثیہ ہے۔ متعدد طلبہ علومِ دینیہ حاصل کرکے چہار سمت تبلیغِ دِین و مسلک کر رہے ہیں۔ 1972ء میں ڈولی کھاتا، گلستانِ شفیع اوکاڑوی ( سولجر بازار ) کراچی میں ایک قطعہ زمین پر جو گزشتہ سو برس سے مسجد کے لیے وقف تھا، مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نے تعمیر مسجد کی بنیاد رکھی اور بلا معاوضہ خطابت شروع کی۔ ایک ٹرسٹ قائم کیا، جس کا نام گُل زارِ حبیب ﷺ رکھا۔ مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی اس کے بانی و سربراہ تھے۔ اس ٹرسٹ کے زیر اہتمام جامع مسجد گُل زارِ حبیب اور جامعہ اسلامیہ گُل زارِ حبیب زیر تعمیر ہیں۔ اسی مسجد کے پہلو میں آپ کی آخری آرام گاہ مرجعِ خلائق ہے ۔

🌹بے مثل خطابت:

مسلسل چالیس برس تک ہر شب حافظ محمد شفیع اوکاڑوی مذہبی تقاریر فرماتے رہے ہیں۔ محمد شفیع اوکاڑوی کی علمی استعداد ،حُسنِ بیان، خوش الحانی اور شانِ خطابت نہایت منفرد اور ہر دل عزیز تھی۔ ہر تقریر میں ہزاروں، لاکھوں افراد کے اجتماعات ہوتے تھے۔ ماہِ محرم کی شبِ عاشورہ میں ملک کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع، مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی کے خطاب کی مجلس کا ہوتا تھا۔ پاکستان کا کوئی علاقہ شاید ہی ایسا ہو جہاں مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نے اپنی خطابت سے قلب و جاں کو آسودہ نہ کیا ہو۔ دِین و مسلک کی تبلیغ کے لیے مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نے شرقِ اوسط، خلیج کی ریاستوں، بھارت، فلسطین، جنوبی افریکا، ماریشس اور دوسرے کئی غیر ملکی دَورے کیے۔ صرف جنوبی افریقا میں 1980ء تک محمد شفیع اوکاڑوی کی تقاریر کے ساٹھ ہزار کیسٹس فروخت ہوچکے تھے۔ دوسرے ممالک میں فروخت ہونے والی کیسٹس کی تعداد بھی کم نہیں اور اب محمد شفیع اوکاڑوی کی تقاریر کی وڈیو کیسٹس بھی پھیل رہی ہیں ۔

🌹تصانیف

محمد شفیع اوکاڑوی کی عالمانہ تحقیق، فقہی بصیرت اور عشقِ رسول ﷺ پر مبنی متعدد تصانیف ہیں، جو مذہبی حلقوں میں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ ہر کتاب ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوکر نہایت مقبول ہوئی۔ ان کے نام یہ ہیں :۔

📚ذکرِ جمیل
📚ذکرِ حسین ( دو حصّے )
📚راہِ حق 
📚درسِ توحید
📚شامِ کربلا
📚راہِ عقیدت 
📚امام پاک اور یزید پلید
📚برکاتِ میلاد شریف 
📚ثواب العبادات
 📚نماز مترجم
📚سفینۂ نوح ( دو حصّے )
📚مسلمان خاتون 
📚انوارِ رسالت
📚مسئلہ طلاق ثلاثہ
📚نغمۂ حبیب 
📚مسئلہ سیاہ خضاب 📚📚انگوٹھے چومنے کا مسئلہ
📚اخلاق و اعمال ( نشری تقاریر )
📚تعارفِ علمائے دیوبند
📚میلادِ شفیع
📚جہاد و قتال
📚آئینہ حقیقت
 📚نجوم الہدایت
📚مسئلہ بیس تراویح
📚مقالاتِ اوکاڑوی
اور متعدد فتووں وغیرہ پر مشتمل رسائل وغیرہ ۔

🌹قاتلانہ حملہ:

16اکتوبر 1962ء میں کراچی کے علاقہ کھڈا مارکیٹ میں ایک سازش کے تحت اختلافِ عقائد کی بنا پر کچھ لوگوں نے محض تعصب کا شکار ہوکر دَورانِ تقریر محمد شفیع اوکاڑوی پر چُھریوں اور چاقوؤں سے شدید قاتلانہ حملہ کِیا جس سے آپ کی گردن، کندھے، سَر اور پُشت پر پانچ نہایت گہرے زخم آئے۔ کراچی کے سول ہسپتال میں دو دن کے بعد پولیس آفیسر کو اپنا بیان دیتے ہوئے محمد شفیع اوکاڑوی نے کہا ’’ مجھے کسی سے کوئی ذاتی عناد نہیں۔ نہ مَیں مجرم ہوں۔ اگر میرا کوئی جرم ہے تو صرف یہ کہ مَیں دِینِ اسلام کی تبلیغ کرتا ہوں اور سید العالمین محسنِ انسانیت حضور رحمتِ دو جہاں ﷺ کی تعریف و ثناء کرتا ہوں۔ مَیں کسی سے بدلہ لینا نہیں چاہتا اور نہ مَیں حملہ آوروں کے خلاف کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میرا خون ناحق بہایا گیا ہے۔ اللہ تعالی اسے قبول فرمائے اور میری نجات کا ذریعہ بنائے۔ مَیں حملہ آوروں کو معاف کرتا ہوں۔ باقی آپ لوگ بقائے امن کے لیے جو مناسب ہو، وہ کریں تاکہ ایسی کارروائیاں آئندہ نہ ہوں۔ ‘‘ محمد شفیع اوکاڑوی نے اس مقدمے کے لیے کوئی وکیل نہیں کیا نہ کسی مقدمے کی پَیروی کی۔ صرف ایک گواہ کی حیثیت سے اپنا بیان دیا۔ محمد شفیع اوکاڑوی کا اس حملے سے جاں بَر ہونا محض ایک کرشمہ تھا ۔
انگریزی روزنامہ ڈیلی نیوز کا پہلا شمارہ اگلی صبح 17 اکتوبر کو جاری ہُوا۔ جس کی بڑی سرخی محمد شفیع اوکاڑوی پر قاتلانہ حملے سے متعلق تھی۔ محمد شفیع اوکاڑوی ڈھائی مہینے اسپتال میں زیرِ علاج رہے اور اسپتال سے فارغ ہوتے ہی پھر تبلیغِ دِین میں مصروف ہو گئے۔ اس قاتلانہ حملے کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج ہُوا ۔

🌹دینی، ملی، قومی، سیاسی اور فلاحی مثالی کار گزاری:

🌹سفرِآخرت:

20 اپریل 1984ء کو آخری خطاب جامع مسجد گُلزارِ حبیب ﷺ میں نمازِ جمعہ کے اجتماع سے کیا۔ اسی شب تیسری بار دل کا شدید دَورہ پڑا اور قومی ادارہ برائے امراضِ قلب میں داخل ہوئے۔ تین دن بعدمنگل، 21 رجب المرجب 1404 ھ بمطابق 24 اپریل 1984ء کی صبح 55 برس کی عمر میں اذانِ فجر کے بعد دُرود و سلام پڑھتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔

25 اپریل کو نشتر پارک، کراچی میں علامہ سید احمد سعید کاظمی کی امامت میں ظہر کی نماز کے بعد لاکھوں افراد حضرت خطیبِ پاکستان کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ اور پیارے کملی والے تاج دارِ مدینہ ﷺ کے اس عاشقِ صادق کو کمال محبت و احترام سے رخصت کیا
(منقول)

✍️خیر خواہ اہلسنت
نازش المدنی مرادآبادی غفر لہ الھادی
واٹسپ نمبر :+918320346510

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے